آخری الوداعی خدشے میں
کچھ دعائیں بھی رکھنا بستے میں
ایک لمحے میں حادثہ ہوگا
عمر لگ جائے گی سنبھلنے میں
پھر ہوس ناچتی پھرے گی اور
مردہ بچے ملیں گے کچرے میں
انکی تعبیر مہنگی پڑتی ہے
خواب بکنے لگے ہیں سستے میں
ذات کی قید سے نہیں نکلی
میں اکیلی تھی اتنے مجمعے میں
مجھ کو جلدی تھی گھر پہنچنے کی
رہ گیا انتظار رستے میں
ایک ہی اعتبار کافی تھا
پھر نہیں آئی اسکے دھوکے میں
شہلا اسکو بہت ستاؤں گی
اچھا لگتا ہے مجھ کو، غصے میں
شہلا خان