نازکی اونگھتی ہے بستر کی
گدڑیاں اوڑھ لو قلندر کی
کام کا کیا ہے چلتا رہتا ہے
یاد آنے لگی ہے اب گھر کی
چاکری میں کوئی برائی نہیں
ہاں مگر کیسی اور کس در کی؟
کرچیوں سے بنائے شیش محل
عادتیں دیکھو میرے دلبر کی
شعلے دوزخ سے چوری کر لایا
کوٹھڑی دل کی یوں منوّر کی
وائے محرومی اور تشنہ لبی
تلخیاں پی گیا سمندر کی
کلیم باسط