بجا ترکِ وفا کی کوششیں لیکن تعجب ہے
کہ بے جا زحمتیں کیونکرگوارا کر رہا ہوں میں
ہے اک حُسن عمل پنہاں درونِ پردۂ ہستی
کسے معلوم اس پردے میں کیا کیا کر رہا ہوں میں
نہ ہو یا رب کبھی تکمیل میرے اس ارادے کی
کہ اب ترکِ محبت کا ارادہ کر رہا ہوں میں
سرِ محشر مجھے شکوہ ہے اک جانِ تمنا سے
دلیلیں ہوش میں آئیں کہ دعویٰ کر رہا ہوں میں
نہ ساغر ہے نہ پیمانہ نہ ساقی ہے نہ میخانہ
شکیل اب چند اشکوں میں گزارا کر رہا ہوں میں
شکیلؔ بدایونی