درد کی نیلی رگیں تہہ سے اُبھر آتی ہیں
یاد کے زخم میں چنگاریاں در آتی ہیں
روز پرچھائیاں یادوں کی پرندے بن کر
گھر کے پچھواڑے کے پیپل پہ اتر آتی ہیں
صورتیں بنتی ہیں چاہت کی یہ کس مٹی سی
بارہا مٹ کے بھی یہ بار دگر آتی ہیں
اودے اودے سے صفورے کی گھنی ٹہنیوں سی
یاد کی سر مئی کرنیں سی گز ر آتی ہیں
روز کھڑکی سے قریب آم کے اس پیڑ کے پاس
طوطیاں چونچ میں لے لے کے سحر آ تی ہیں
فرزانہ نیناں