پریشان بے وجہ کوئی نہیں ہے
بھلے کچھ بولتا کوئی نہیں ہے
گزرتا ہوں میں اکثر اس گلی سے
گزرتا ہی جہاں سے کوئی نہیں ہے
اندھیرا ہی اندھیرا ہر جگھ ہے
یہاں روشن نشاں کوئی نہیں ہے
میں ایسے دور میں جی رہا ہوں
جہاں آسان جینا کوئی نہیں ہے
کھلا ہے گھر کا ہر دروازہ لیکن
وہاں سے جھانکتا کوئی نہیں ہے
ایسی بھیڑ میں بھی لگ رہا ہے
یہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
بظاہر سانس تو سب لے رہے ہیں
مگر زندہ یہاں کوئی نہیں ہے
وہاں سےکیوں گزرتے ہو تم یوسف
تمہارا جس جگہ پر کوئی نہیں ہے
محمد یوسف برکاتی