بہت یاد آئیں گے وہ دن
بہت یاد آئیں گے وہ دن
کہ جن میں ہم نے دیکھے ہیں
تری آنکھوں کے سب موسم
ترے لہجوں کی وہ شبنم
تری ذومعنی اور بے معنی سب باتیں
تصور سے ترے مہکی ہوئی راتیں
وہ زیر و بم تری آواز کے جب یاد آئیں گے
تصور ہی تصور میں جو پھر ہم مسکرائیں گے
بہت یاد آئیں گے وہ دن کہ جن میں ہم نے دیکھی ہے
چمک ماتھے پہ تیرے ،چاند تاروں کی
جو تیرے مسکرانے پر کھلیں ان سب بہاروں کی
جو تیرے سنگ پہروں بیٹھنا بھی یاد آئے گا
تیری ہمراہی میں چلنا بھی دل اپنا جلائے گا
میں سوچوں گی تمھیں تو وقت جیسے ٹھہر جائے گا
بہت یاد آئیں گے وہ دن کہ جو ہم نے گزارے ہیں
تمھارے قرب میں بھیگے ہوئے وہ دن
شازیہ اکبر