خوشبوؤں سے کلام مت کرنا
شہر میں دیکھ شام مت کرنا
تتلیاں، پھول، خو اب، خوشبو تم
اب کبٍھی میرے نام مت کرنا
اپنے آنچل میں رنگ سب بھرنا
رنگ یکساں تمام مت کرنا
فون پر تم ملے ہو مشکل سے
گفتگو کو تمام مت کرنا
آنسوؤں کی شفق ہے آنکھوں میں
کہہ کے لوگوں میں عام مت کرنا
میرے اعزاز میں کسی کے گھر
شام کا اہتمام مت کرنا
حرمتِ دل کا جو نہ ہو قائل
اس کے گھر میں قیام مت کرنا
شیشۂ دل پہ جو گریں پتھر
ان کا تم احترام مت کرنا
لڑکھڑا جائے گی زباں نیناں
اس سے ہرگز کلام مت کرنا
فرزانہ نیناں