خیبرپختونخوا حکومت اور خون کا سودا
ایک اردو تحریر از یوسف صدیقی
خیبرپختونخوا کی فضاؤں میں ایک بار پھر بارود کی مہک گھل چکی ہے۔ گلیاں لاشوں سے بھر رہی ہیں، گھروں میں صفِ ماتم بچھا ہے، مائیں بیٹوں کو کھو رہی ہیں اور بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران ایسے خاموش ہیں جیسے ان کے کانوں تک یہ بین پہنچ ہی نہیں رہے۔ صوبائی انتظامیہ کی یہ بے حسی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
دی ڈپلومیٹ کی حالیہ رپورٹ ایک تشویشناک تصویر سامنے لاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں شدت پسند حملوں میں حالیہ دنوں میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ یہ کارروائیاں نہ صرف شہریوں بلکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو بھی براہِ راست نشانہ بنا رہی ہیں۔ اس کے باوجود صوبائی حکومت وفاق کی سخت حکمتِ عملی کے بجائے نرم لہجے کی پالیسی اپنانے پر مصر ہے۔ وفاقی سطح پر یہ مؤقف موجود ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن ایکشن ضروری ہے، مگر کے پی انتظامیہ اس سے ہٹ کر اپنا راستہ اختیار کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کی جانوں کی قیمت پر یہ الگ پالیسی آخر کس مقصد کے لیے اپنائی جا رہی ہے؟
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت شاید وفاق کے ساتھ کشیدگی کا بدلہ عوامی سلامتی پر کھیل کر لے رہی ہے۔ تحریک انصاف کے بانی اب بھی جیل میں ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے اس سیاسی انتقام کی بھٹی میں عوام کی زندگیاں ایندھن بن رہی ہیں۔ ایک طرف مسلح گروہ روز شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف حکمران ضد پر ڈٹے ہیں۔
یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ صوبے کی بعض سیاسی صفوں اور پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے درمیان روابط ہیں۔ پی ٹی ایم کے بعض عناصر پر طالبان کو سہولت دینے اور معلومات پہنچانے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ یہ تعلقات دہشت گردی کے زخموں کو اور گہرا کرتے ہیں اور لوگوں کو مزید مایوسی میں دھکیل دیتے ہیں۔
طالبان سے بات چیت کی پالیسی پہلی بار عمران خان کے دور میں اپنائی گئی تھی۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت جنگجوؤں کو دوبارہ سوات میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی۔ یہ وہی وادی ہے جہاں کبھی دہشت گردوں نے ریاستی پرچم اتار پھینکا تھا اور پاک فوج نے جانوں کی قربانی دے کر آپریشن راہِ راست اور راہِ نجات کے ذریعے دوبارہ قومی پرچم لہرایا۔ بعد ازاں آپریشن ضربِ عضب اور ردّالفساد نے خطے میں نسبتاً سکون قائم کیا۔ ان کارروائیوں میں ہزاروں سپاہی اور شہری شہید ہوئے۔ ماؤں نے بیٹوں کو، بیویوں نے سہاگ کو اور بچوں نے والد کا سایہ کھویا۔ آج ان قربانیوں کو پسِ پشت ڈال کر ایک بار پھر مفاہمت کی بات کرنا شہداء کے خون سے انکار کے مترادف ہے۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ صوبائی انتظامیہ افغانستان میں طالبان حکام کے ساتھ براہِ راست رابطے کی خواہاں ہے تاکہ سرحد پار سے حملے روکے جا سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب وفاق اور عسکری ادارے ایک مشترکہ حکمتِ عملی پر متفق ہیں تو ایک صوبہ کس اختیار سے اپنی الگ راہ اختیار کر سکتا ہے؟ ریاست کے ستون جب ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوں تو دشمن کو تقویت ملتی ہے، اور یہی اس وقت ہو رہا ہے۔
عوام آج بے بسی سے پوچھ رہے ہیں: کیا ہماری زندگیاں اتنی ارزاں ہیں کہ سیاسی انتقام اور ذاتی ضد پر قربان کر دی جائیں؟ کیا ہماری لاشوں پر سیاست ہی ہوتی رہے گی؟ ریاست کا بنیادی فرض عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے لیکن یہاں صورتحال الٹی ہے۔
اب وقت ہے کہ ریاست ایک مؤقف پر متحد ہو۔ بات چیت کا ڈھونگ ختم کر کے دہشت گردوں کے خلاف حتمی کارروائی کی جائے۔ خیبرپختونخوا کے لوگ مزید کسی سودے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر حکمران اب بھی نہ جاگے تو آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ تاریخ ہمیشہ محفوظ رکھتی ہے کہ کس نے عوام کے ساتھ کھڑا ہوا اور کس نے انہیں بے رحم دشمن کے سامنے تنہا چھوڑ دیا۔
یوسف صدیقی
 
				 
					
 
						






