بھٹو کا جیالا اور آصف زرداری
علی عبداللہ ہاشمی کا ایک کالم
بھٹو کا جیالا اور آصف زرداری
"بھٹو کا جیالا اور آصف زرداری” بطور جیالا جب میں آصف زرداری کیطرف دیکھتا ہوں، تو رہ رہ کر میرے دل میں خیال آتا ھے کہ مجھے اس بندے سے معافی مانگنی چاھیئے۔ ھم عزت کرنے والے لوگ ہیں لیکن عام پاکستانی گھروں میں دو لوگ ہمیشہ Misinterpreted ہوتے ہیں۔ ایک "والد” دوسرے "بہنوئی”, دونوں رشتوں کا پروٹوکول مثالی رکھنے کی کوشش کیجاتی ھے لیکن ھم دونوں ہی کیساتھ کچھ توہمات جوڑ کر انکی "شخصیت اور مزاج” کو سمجھنے کی بجائے انکا پروٹوکول پورا کرنے کو ہی احترام اور خدمت کا نام دے لیتے ہیں۔ اسطرح ھم اپنے انتہائی عزت والے رشتوں کو آہستہ آہستہ بے معنی کرتے جاتے ہیں۔ احترام کب "احتیاط” میں بدلتا ھے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور انسان ٹھہرا بے احتیاط، آہستہ آہستہ "ابا جی” اور "بہنوئی” دونوں محض بچوں کو ڈرانے کے کام آنے لگتے ہیں نتیجتاً ابا جی خاموش اور بہنوئی لاتعلق ہونے میں ہی عافیت جان کر اس منافقت کا انجام باالخیر فرماتے ہیں۔
انسانی رویوں پر بحث پھر کبھی الحال مجھے آصف علی زرداری سے معافی مانگنی ھے۔ ندامت اسقدر زیادہ ھے کہ سوچا سجدہِ تعظیمی؟ پھر سوچا نہیں کر سکتا، مولوی مار دے گا، تو کیا ہاتھ چوموں؟ خیال آیا ابا جی کیا سوچیں گے "کہ میرے ہاتھ تو کبھی چومے نہیں”، پھر دل میں آیا خط لکھوں؟ مگر اپنا ضمیر ہی مطمعن نہ ہوا۔۔ کوئی غلطی اُس وقت قابلِ معافی بنتی ھے جب انسان اپنی ذات کی تنہائی میں اور دل کے ترازُو پر اپنے کسی عمل یا روئیے پر شرمندگی محسوس کرے لہذا سب سے پہلے تو میں اقرار کرتا ہوں کہ میں آصف علی زرداری تئیں اپنے روئیے اور عمل دونوں پر انتہائی شرمندہ ہوں اور روئیے و عمل کی سطح پر جو غلطی میں نے رواجاً کی اسکے سُدھار کا بہترین ذریعہ مجھے تحریر نظر آئی جو میری طرح فانی نہیں ھے اور شائید ایک آدھ اور بندے کی معافی کا باعث بھی بن جائے۔ میں 24 محرم الحرام مورخہ 3 دسمبر 1980 بروز بُدھ صبج تقریباً پونے آٹھ بجے اس دنیا میں آیا۔ میری ولادت نے خوشیاں تو حسبِ توفیق بانٹیں مگر احترامِ مُحرم میں مجھ سمیت کسی کو مٹھائی نہیں کھلائی گئی اور اُس وقت کے سب سے کڑوے آدمی، میرے ابا جی سے گُھٹی دلا کر میرے اندر کڑواہٹ کا انتظام کیا گیا۔ گھُٹی کی کڑواہٹ نے میرے بھیتر میں اجالا کیا تو بھٹو صاحب، بیگم نصرت بھٹو، بی بی صاحبہ، میرُو، شاہنواز، صنم کی تصویری ذہن و دل پر کندہ ہوئیں یہاں تک کہ جب یہ اعلان ہوا کہ بی بی صاحبہ کی شادی طے ہو گئی ھے تو میں نے بھی کروڑوں جیالوں کیطرح خوشی ملے تذبذب کیساتھ اس خبر کا استقبال کیا۔
یہاں ایک بچپن کا واقعہ یاد آ گیا، ھم کوئی 14/15 کے سن میں ہوں گے کہ بانو باجی کی کراچی سے بارات آئی، شادی کی رات بارات سسرال ہی ٹھہری، لونڈے لپاڑوں نے تاش کی محفل لگائی مگر بانو باجی کا چھوٹا بھائی جو اُس وقت 20/21 کا ہوگا انتہائی عجیب و غریب حواس باختہ سا پھرتا رہا۔۔ مجھے اسکی حواس باختگی کی سمجھ اُس دن آئی جس دن میری بڑی بہن بیاہ کر پیا گھر سدھاری، یہ بہت عجیب سے جذبات ہوتے ہیں جن سے ہر شریف عورت کا بھائی گزرتا ھے۔۔۔ تو زرداری صاحب کی شادی پر اس ملک کر کروڑوں لوگوں کو سالےسالے والی انتہائی عجیب سی فیلنگ سے گُزرنا پڑا جو بہت حد تک 1988 میں بی بی صاحبہ کی بطور وزیرِاعظم تقریب حلف برداری اور بقیہ بلاول کی ولادت پر رفع ہوئی۔ بھٹو صاحب اپنے جیالے کیساتھ عشق کرتے تھے اور اس عشق کے چھینٹے جس جس زمین پر گرے وہاں وہاں بھٹو خاندان کے وفاداروں نے جنم لیا۔ بھٹو صاحب کی شہادت نے جیالوں کو انکی آل اولاد کے بارے میں انتہائی حساس کر دیا تھا اور جیسے بھُٹوز عوام کہہ کر میرےعوام کا مزہ لیتے اِسی اُنکے جیالے بھی بُھٹو کہہ کر میرےبھُٹو کا لُطف لیتے۔ میں قرآن پر حلف دیکر بھی کہہ سکتا ہوں کہ بی بی صاحبہ کی شادی کی خبر نے آٹھ برس کی عمر میں بھی مجھے خوشی و تذبذب کی ملی جُلی فیلنگ سے گُزارا۔۔ ہمارے یہاں ماں بہن ذاتی عزت و حُرمت سے جُڑے رشتے ہیں۔ انکی کسی دیگر سے نسبت ہمیں قلبی ہیجان سے گزارتی ھے چاہے وہ انکی شادی کے باعث ہو اور زرداری صاحب نے آدھے ملک کو اس ہیجان سے گزار دیا اور میں نے جواباً انکے ساتھ وہی کیا جو میری فطرت تھی۔ میں نے قرآنِ پاک کیطرح اُسے عزت و تکریم کے غلاف میں ڈال کر اونچی جگہ رکھ دیا اور بقول ممتاز مُفتی انسان طبعاً سُست ھے، کون وضو کا تردد کرے، پاک صاف کپڑے پہنے، جائے نماز پر دوزانو بیٹھے، ریہل پر سجائے اور قرآن پڑھے۔۔۔۔ گو عشق واحد کا صیغہ ھے، بھٹوز کے بعد اس دل میں کسی اور کیلئے کنجائش بھی نہیں تھی پھر بھی میں نے آصف زرداری کیساتھ جو بہنوئیوں والی کی میں اسکے لیئے اس سے دست بستہ معافی طلب کرتا ہوں۔۔ میں عشقِ واحد بھٹو میں اسقدر مبتلا رہا کہ جب بدماشیہ اور اسکے چیلے چپاٹوں نے زرداری صاب کی کردارکُشی مُہم شروع کی، اُس وقت بھی میری کاہلی آڑے آئی اور میں نے غلاف اتار کر کتابِ تکریم نہیں کھولی۔ گو میں (بُجھے دل) بھرپور آواز سے زرداری کو ڈیفینڈ کرتا رہا لیکن کہیں نہ کہیں مجھے یہ تعصب رہا کہ "یہ بھُٹو نہیں” لہذا میں آج اپنی اس نالائقی پر زرداری صاب سے معافی مانگتا ہوں۔۔ بی بی صاحبہ جو میرے لیئے ماں تو کسی کیلئے بہن اور کسی کی بیٹی تھیں اور جنکا ہر ہر لفظ ہمارے لیئے بھُٹو صاحب کا قول تھا وہ اپنے مجازی خدا کو کبھی نیلسن_منڈیلا سے تشبیح دیتیں تو کبھی مردِ_حُر کہہ کر ہم پر اصلیت کھولتیں مگر متعصب دل اور فقط بھٹو کی گردان جہالت کا ناگ بن کر ہمارے دلوں سے لپٹی رہی، ھم چاہ کر بھی زرداری صاحب کی اہمیت نہ پہچان سکے۔ پراپوگنڈہ فیکٹری راولپنڈیہ اور اسکے زرخرید غلاموں، نیچ عدلیہ سمیت کالے احتساب نے بی بی صاحبہ کو بطور عورت زِچ کرنے کیلئے انکے شوھر پر الزامات اور جبر و تشدد کا بازار گرم کیئے رکھا۔ ناں بی بی صاحبہ ڈگمگائیں ناں انکا شوھر پیچھے ہٹا لیکن میں بطور جیالا جو بی بی صاحبہ کیلئے تو جان دے سکتا تھا انکے سر کے تاج، انکے غرور کیلئے کھُلے دل سامنے آنے پر آمادہ نہ ہوا کیونکہ وہ بھٹو نہیں تھا۔۔ میں اس صریحاً بددیانتی پر زرداری صاحب سے معافی کا طلبگار ہوں۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر پیپلزپارٹی پر کسی کا سب کچھ نچھاور ہوا تو وہ آصف زرداری تھا۔ ایک بھی سیاسی قیدی ایسا نہیں جس نے زرداری صاحب سے زیادہ قید یا تشدد برداشت کیا ہو۔ ایک بھی جیالا ایسا نہیں جس نے اسکے خاندان سے زیادہ بدماشیہ کا پریشر جھیلا ہو۔ ھم جیالوں نے گڑھی خدا بخش کے باسی کو لاشوں کے نذرانے ضرور دیئے مگر بینظیر کی قربانی آصف علی زرداری پیش کی۔۔ ھم نے بڑے بڑے عزتدار جیالوں کو جنم دیا ہوگا مگر پیپلز پارٹی کو بلاول آصف زرداری نے دیا ھے۔ ہماری بیٹیوں کی بڑی سے بڑے قربانی بھی آصفہ اور بختاور کی ماں کی قربانی سے کم تر رھے گی اور یہ بختاور آصفہ آصف علی زرداری کی دین ہیں۔ میں آج آصف زرداری کی قربانیوں اور بھٹو سے عشق کو سلام کرتا ہوں اور اپنی حماقتوں پر ندامت کا اظہار کرتا ہوں۔۔ مجھے تو آصف زرداری کا تعارف اُس دن ہوا جب اسکا غلاف دشمنوں نے قبر میں اتار دیا۔ میں اس دن پاکستان کا انہدام چاہتا تھا، میں خانہ جنگی چاہتا تھا، لیکن آصف زرداری نے پاکستان کھپے کہہ کر مجھے بھٹو صاحب کے اپنے عوام اور اس ملک کی بابت عشق کی یاد دلا دی اور میں اپنے بد ارادوں سے باز آیا۔
27 اگست کو یتیمی کے احساس سے چُور کروڑوں لوگوں کو اُس دن پتہ چلا کہ اگر بی بی ہماری ماں تھی اُسکا شوھر باپ ھے، چاھے کوئی مان پائے یا تکریمی لحافوں میں کھو بیٹھے، باپ باپ ہی رہتا ھے۔ میں نے تو زرداری صاب کیساتھ بہنوئیوں والی کی مگر اُس شیر دل نے کبھی مجھے تنہا نہیں چھوڑا۔ آج اگر مجھ جیسے مغرور کا سر شرمندگی سے جھکا ھے تو بھلے اسکا ملبہ میں معاشرتی روجھانات کے سر ڈال دوں مگر میں جانتا ہوں کہ رذالت میں نے عمداً کی ھے لہذا معافی چاہتا ہوں۔۔ بعدِ نبیؐ حضرت فاطمؑہ 56سے90 دن زندہ رہیں۔ اپنی شہادت سے کچھ دن قبل انہوں نے حضرت علیؑ سے پوچھا، "یاعلی، میں نے سنا ھے لوگ آپکو سلام نہیں کرتے۔” مولا نے فرمایا، "بی بی میں تو سلام کرتا ہوں، لوگ جواب نہیں دیتے” کیونکہ پاکوںؑ کی ہر بات میں نشانیاں ہوتی ہیں، سو جب بھی یہ واقعہ سامنے آتا ھے آصف زرداری سے بطور جیالا میری شرمندگی میں مزید اضافہ ہو جاتا ھے۔۔ ع_ شائید کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات