اردو نظمسعید خانشعر و شاعری

کسی کھوئے ہوئے منظر کا خیال آیا ہے

سعید خان کی اردو نظم

کسی کھوئے ہوئے منظر کا خیال آیا ہے
چُن کے دیوار ہمیں در کا خیال آیا ہے

خود سے ٹکرا گئے پردیس کے آئینے میں
اب کہیں جا کے ہمیں گھر کا خیال آیا ہے

پھر ہمیں خاک بسر لگتی ہے یہ منزلِ دل
جانے کس راہ کے پتھر کا خیال آیا ہے

دل کی پیشانی پہ سجدوں کے نشاں جاگے ہیں
جب کبھی اس بتِ کافر کا خیال آیا ہے

ہم کہ خود اپنی تمنا کے سکندر تھے سعید
اس سے بچھڑے تو مقدر کا خیال آیا

عجب نہیں کہ بتِ بے نیاز کھل جائے
میں رُخ کروں تو وہ زلفِ دراز کھل جائے

دکھائی دے اُسے تصویر سے تصور تک
جس آئینے پہ ترا عکسِ ناز کھل جائے

وہ جلوہ گاہ میں آئے تو اک جہاں پہ مرے
جنونِ دیدہ و دل کا جواز کھل جائے

ہم اہلِ درد کی صحبت میں یہ بھی ممکن ہے
کھلے نہ فتنہ مگر فتنہ ساز کھل جائے

سعید اُن کو صحیفوں سے کیا غرض جن پر
حدیثِ غالب و فیض و فراز کھل جائے

سعید خان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button