اردو غزلیاتباقی صدیقیشعر و شاعری

یہ رات یہ دشت کی ہوائیں

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

یہ رات یہ دشت کی ہوائیں
کیسے اپنا دیا جلائیں

نشہ دیتا ہے زہر غم بھی
ہے تاب ستم تو مسکرائیں

ہوتے رہتے ہیں زخم تازہ
تم ساتھ نہ ہو تو بھول جائیں

اب سوز بھی ساز چاہتا ہے
دنیا کی زباں کہاں سے لائیں

کب تک سنیں دل شکست باتیں
کب تک ہم خود کو آزمائیں

دریا کو پیاس لگ رہی تھی
صحرا سے گزر گئیں گھٹائیں

آئی وہ شاہ کی سواری
آؤ ہم تالیاں بجائیں

در سے دیوار بے خبر ہے
کیسے یہ فاصلے مٹائیں

یہ رنگ کہ رنگ اڑ رہا ہے
یہ ہوش کہ ہوش میں نہ آئیں

ہم تیرے خیال سے بھی گزرے
ایسے میں اگر مراد پائیں

ہو شوق سفر کی خیر باقیؔ
لینے لگے حادثے بلائیں

باقی صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button