اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

ہنگام شرح غم جگر خامہ شق ہوا

میر تقی میر کی ایک غزل

ہنگام شرح غم جگر خامہ شق ہوا
سوز دروں سے نامہ کباب ورق ہوا

بندہ خدا ہے پھر تو اگر گذرے آپ سے
مرتا ہے جو کوئی اسے کہتے ہیں حق ہوا

دل میں رہا نہ کچھ تو کیا ہم نے ضبط شوق
یہ شہر جب تمام لٹا تب نسق ہوا

وہ رنگ وہ روش وہ طرح سب گئی بباد
آتے ہی تیرے باغ میں منھ گل کا فق ہوا

برسوں تری گلی میں چمن ساز جو رہا
سو دیدہ اب گداختہ ہوکر شفق ہوا

لے کر زمیں سے تابہ فلک رک گیا ہے آہ
کس دردمندعشق کو یارب قلق ہوا

اس نو ورق میں میر جو تھا شرح و بسط سے
بیٹھا جو دب کے میں تو ترا اک سبق ہوا

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button