- Advertisement -

شیخوپورہ: کون جیت سکتا ہے اور کون ہارے گا؟

سید زاہد کا ایک کالم

شیخوپورہ پنجاب کا ایک اہم ضلع ہے جس کی سیاست ہمیشہ رخ بدلتی رہتی ہے۔ اس ضلع میں کوئی فرد یا خاندان مستقل چوہدراہٹ قائم نہیں کر سکا۔ یہی حال سیاسی پارٹیوں کا رہا ہے۔ تحریک پاکستان سے لے کر ایوب خان کے دور تک یہاں مسلم لیگی لیڈر جیتتے رہے۔ 1970 سے لے کر 1988 تک یہاں پیپلز پارٹی کو زبردست پذیرائی ملی اسے پنجاب کا لاڑکانہ کہا جاتا تھا۔ پھر سیاست نے پلٹا کھایا اور یہ پاکستان مسلم لیگ کا گڑھ بن گیا۔ لیکن پرانے مسلم لیگی نہیں، نئے افراد تھے بلکہ خاندان ہی بدل چکے تھے۔

پی ٹی آئی کا ڈنکا بجا تو مسلم لیگ (ن) کو زک پہنچی۔ کیا یہ مقبولیت اب سیاسی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے؟
شیخوپورہ میں چار قومی اسمبلی کی سیٹیں ہیں جن پر مسلم لیگ (ن) کے ہیوی ویٹ میدان میں ہیں۔ مریدکے اور شرقپور کی دو سیٹوں سے سابق وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین اور ان کا بھتیجا سابق ضلع ناظم عتیق انور امیدوار ہیں۔ پچھلے الیکشن میں وہ ان دونوں میں سے ایک پر فاتح قرار پائے تھے۔ ایک سیٹ سے پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی کے برگیڈئیر ’ر‘ راحت امان اللہ جیت گئے۔ اس سیٹ سے اب کی بار بھی وہی مقابلے میں ہیں۔

راحت بھٹی کا حلقے سے کوئی خاص تعلق نہیں، ان کا گھر بھی لاہور میں ہے۔ پچھلی مرتبہ تو انہیں اعلیٰ مخلوق کی قرابت داری سیٹ دلوا گئی۔ محترم سابق صدر زرداری نے کہا تھا آپ نے تین سال رہنا ہے اور ہم نے ہمیشہ: سو رات گئی بات گئی۔ اب وہ اپنے بل بوتے پر الیکشن کے میدان میں اترے ہیں۔ پانچ سالہ کارکردگی، ووٹرز سے دوری اور نوجوانوں کی پارٹی کہلوانے والی پی ٹی آئی کے ( 87 ) ستاسی سالہ اس امیدوار کی بڑھتی ہوئی عمر کی مشکلات مسائل پیدا کر رہی ہیں۔

دوسری سیٹ پر پی ٹی آئی نے مسلم لیگ نون کے سابق پارلیمانی سیکریٹری علی اصغر منڈا (جنہیں الیکشن سے باہر کر دیا گیا ہے ) کے بھائی کو میدان میں اتارا ہے۔ پہلی بار الیکشن لڑنے والے ارشد محمود منڈا اس رزم گاہ کے منجھے پہلوان رانا تنویر کی نسبت بہت کمزور ہیں۔

سو رانا تنویر دونوں سیٹیں جیت سکتے ہیں۔

ان حلقوں کی حدود میں آنے والی پنجاب اسمبلی کی سیٹوں پر بھی رانا تنویر گروپ کا پلڑا بھاری ہے۔ ایک سے وہ خود امیدوار ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ پر جو کہ رانا تنویر اور میاں جاوید لطیف دونوں کی حدود میں آتی ہے، لاہور کے ایک معروف سابق پولیس افسر کے بیٹے اویس عمر ورک پی ٹی آئی کے مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کے خاندان کا سیاسی بیک گراؤنڈ بھی مددگار ہے۔ مقابلے میں نون کے میاں رؤف سابق ایم پی اے کو دور کے حلقے سے ادھر بھیجا گیا ہے جو کہ کافی مشکل میں ہیں۔

شیخوپورہ شہر کی سیٹ پر سابق وفاقی وزیر اور الیکڑانک میڈیا پر مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کرنے والے میاں جاوید لطیف امیدوار ہیں۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے شیخوپورہ میں بہت سے کام کروائے ؛ شیخوپورہ کی تصویر بدل دی اور مضبوط امیدوار گنے جاتے ہیں لیکن اس بار کچھ سیاسی غلطیاں کر گئے ہیں۔ شہر میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بہت زیادہ ہے اور اسی پنجاب اسمبلی کی سیٹ پر سب کو ناراض کر کے اپنے بھائی کو میدان میں لائے ہیں۔

اپنے نیچے ہی آنے والی دوسری سیٹ پر ایک کمزور امیدوار کو امپورٹ کیا گیا ہے۔ دونوں پر مقابلہ پی ٹی آئی کے مضبوط امیدواروں سے ہے۔ مقامی راشد طیاب سندھو اور سابق ایم پی اے شیر اکبر خاں ان کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں اس طرح جاوید لطیف کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مسلم لیگ کے حالات تینوں صوبائی سیٹوں پر بہت خراب ہیں۔

میاں جاوید لطیف کے مخالف پنجاب کے سابق وزیر قانون خرم شہزاد ورک بہت تیز طرار آدمی ہیں۔ ضمنی الیکشن میں وسیع مارجن سے جیتے تھے۔ بار کے صدر بھی رہے ہیں اس لیے وکلا کی کافی حمایت حاصل ہے، سیاسی لحاظ سے مضبوط خاندان سے تعلق ہے۔

ان حالات میں میاں جاوید لطیف کے لیے بھی میدان مارنا پہلے جتنا آسان نہیں رہا۔

ہاں! وہ الیکشن انجینئرنگ کے ماہر ہیں اور آخری راتوں میں بھی لد پھند کر ووٹرز اور مقامی ڈیرہ داروں کے پاس جا کر پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔

ضلع کی چوتھی سیٹ پر تین دفعہ کے فاتح عرفان ڈوگر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے 1985 سے مختلف انتخابات ہارنے جیتنے والے منور منج کے صاحب زادے خرم منور منج ہیں جو خود بھی 2002 میں پی پی پی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ فلور کراسنگ کر کے مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے اور پرویز الٰہی گروپ سے ہی پی ٹی آئی میں آئے ہیں۔

عرفان ڈوگر کی پندرہ سالہ کارکردگی اور میل ملاپ ان کے راستے کا پتھر ہے۔ صوبائی شہری حلقہ فاروق آباد میں دور دراز سے امیدوار امپورٹ کیا گیا ہے جس کی پوزیشن کافی خراب ہے۔ اسی علاقے کی باقی دو سیٹوں پر سجاد حیدر گجر اور رانا محمود الحق انتہائی مضبوط ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق ٹکٹ ہولڈر بھی صوبائی حلقوں میں کھلم کھلا ان کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن ان دو مضبوط امیدواروں کی موجودگی میں بھی عرفان ڈوگر کافی کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔

ایک بات قابل غور یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی سے پہلے ہی اپنے امیدوار نامزد کر دیے تھے اس لیے بلے کے نشان کے چھن جانے کے باوجود ضلع میں عوام کو کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں۔ میڈیا میں پی ٹی آئی کے خلاف انجینئرنگ کا جو شور مچا ہوا ہے وہ شیخوپورہ میں کم کم ہی نظر آتا ہے۔ ان کے سارے امیدوار کھلم کھلا الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ سب امیدواروں میں ان کا کوئی ڈائی ہارڈ ورکر بھی نہیں۔ اکثر جیت کے بعد پارٹی چھوڑ جائیں گے۔ اس لیے یہاں کا الیکشن اپنا اپنا ہے۔ کوئی غیر مرئی طاقت ادھر اپنی قوت استعمال نہیں کرے گی۔ جو جیت گیا وہی ان کا بن جائے گا۔ بلکہ نون کے ایک امیدوار ان کی گڈ بکس میں نہیں اس لیے اگر کوئی دلچسپی ہوئی تو خلائی مخلوق ادھر ہاتھ دکھائے گی۔

 

سید محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سید زاہد کا ایک کالم