جس کا ہونا میرا ہونا بنتا ہے
وہ دنیا کے آگے بونا بنتا ہے
ہم تو فرض نبھاتے ہیں مجبوری کا
ہنسنے کی بنیاد کھلونا بنتا ہے
جس میں اپنے پاؤں بھگو لے وہ اک بار
اس دریا کا پانی سونا بنتا ہے
خاموشی اظہار میں ڈھل کر بات بنی
ہونے کی بنیاد نہ ہونا بنتا ہے
عمروں کی مزدوری لگتی ہے اس پر
لمحوں میں تو وقت کا کونا بنتا ہے
میں دشمن کی موت پہ کیسے رقص کروں
میرا تو اس دکھ میں رونا بنتا ہے
پہلے اس کو باغ سلامی دیتا ہے
بعد میں ہر اک پھول بچھونا بنتا ہے
اس پرچم میں بدبو ہے غداری کی
اس پرچم کو خون سے دھونا بنتا ہے
اوروں کا تو بار گراں ہے مان لیا
اپنا اپنا بوجھ تو ڈھونا بنتا ہے
اس کا جسم نومبر کا خورشید منیر
اس پیکر کی دھوپ میں سونا بنتا ہے
منیر جعفری