- Advertisement -

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

ایک اردو نظم از امجد اسلام امجد

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں، بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں۔۔۔ گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں۔۔۔کشتیاں چلاتے ہیں

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاوش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا ۔۔۔ خون بہا نہیں ملتا

زندگی کے دامن میں ۔۔۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو ۔۔۔ پسِ نوشت ہو جائے

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج ۔۔۔ دیر سے نکلتے ہیں

امجد اسلام امجد 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
جگر مراد آبادی کی سوانح حیات