- Advertisement -

ایک تھا بجو کا

افسانہ نگار طاہر انجم صدیقی

ڈاکٹر بن خادم امریکی ورلڈٹریڈ سینٹر چھوڑنے کے دوسرے دن اپنے ملک کے ایئر پورٹ سے گاؤں پہنچ چکے تھے ۔ ان کی اے سی کار حویلی کی جانب جانے والے کچے راستے پر آہستگی سے رینگ رہی تھی اور وہ سفید رنگ کا پٹھانی سوٹ پہنے ، سر پر سفید عمامہ باندھے ، اپنے ڈرائیور کے ساتھ ہی بیٹھے اطراف کا جائزہ لے رہے تھے ۔ کچے راستے کے چھوٹے بڑے گڑھوں اور ابھرے پتھروں پر اچھلتی کودتی آہستہ روی سے آ گے بڑھتی کار کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھی ڈاکٹر بن خادم کی طرح اپنے گاؤں پہنچ کر بڑی شادو مسرور ہے اور اچھل کود سے اپنی مسرت کا اظہار کررہی ہے۔ کارکی کھڑکی سے اندر داخل ہونے والے ہوا کے جھونکے کھیتوں کی مٹی کی بھینی بھینی خوشبوؤں کے ساتھ کچی پکی فصلوں کی مہک بھی لئے چلے آرہے تھے اور ڈاکٹر بن خادم سے ٹکرا کر، ان کی گھنی داڑھی کے لمبے لمبے بالوں کو گدگداکر دوسری کھڑکی سے باہر نکلتے جارہے تھے ۔ وہ راستہ سیدھے ان کی حویلی پر ختم ہوتا تھا ۔ راستے کے دونوں طرف چھوٹے بڑے کھیتوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا ۔ ان میں سے کسی کھیت کی فصلیں کاٹی جاچکی تھیں تو کسی کی کاٹی جا رہی تھیں ۔ کہیں کھیتوں میں ہل جوتے جارہے تھے تو کہیں بیج بو یا جارہا تھا ۔ کسی کھیت میں سر اٹھانے والے پودوں پر دواؤں کا چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا تو کسی کھیت میں تیار فصلیں کھڑی جھوم رہی تھیں ۔ جنہیں دیکھ کر ان کے ہو نٹوں پر ایک پرُسکون سی مسکراہٹ پھیل رہی تھی اور وہ اپنی اے سی کار میں بیٹھے اطراف پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنی حویلی کی طرف بڑ ھتے چلے جا رہے تھے ۔ ان کا ڈرائیور بڑی آہستگی سے کار آگے بڑ ھا رہا تھا ۔
اچانک ہی ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ سکڑی، پیشانی پر بل پڑے اور وہ بے ساختہ بول پڑے.
’’گاڑی روکو ڈرائیور !گاڑی روکو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کار روک کر ڈرائیور نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا.
’’وہ دیکھو۔۔۔بجوکا کھڑا ہے اس کھیت میں!‘‘
ڈرائیور نے ڈاکٹر بن خادم کی نظروں کا تعاقب کیا تواسے کھیت میں واقعی بجوکا کھڑا نظر آیا. بانس کی دو کھپچیوں پر پیلی پینٹ اور لال شرٹ اڑس کر سر کی جگہ اوندھی رکھی گئی مٹی کی ہانڈی ہر کالے رنگ سے آ نکھ ، منہ ، ناک اور کان بنا کر کھیت میں کھڑا کیا گیا وہ بجوکا واقعی کوئی انسان ہی دکھائی دے رہا تھا ۔ اس کے کپڑے ہوا کے تیز جھونکوں سے پھڑ پھڑارہے تھے اور کپڑوں کی یہ پھڑ پھراہٹ روکی گئی کار تک پہنچ رہی تھی جسے سن کر ڈرائیور نے کہا.
’’واقعی صاحب ! یہاں تو بجو کا کھڑا ہے !!۔۔۔۔۔حیرت ہے۔۔۔۔بجوکا اور وہ بھی آپ کے علاقے میں ؟۔۔۔۔۔بڑی حیرت کی بات ہے ۔۔۔ویسے یہ کھیت عیدو بھائی کا ہے ۔۔۔بلاؤں کیاانہیں ؟۔۔۔۔‘‘
’’ہاں!۔۔۔۔۔‘‘
ان کا جواب سن کر ڈرائیور نے کار کا انجن بند کیا اور دروازہ کھول کر قدم باہر نکالاہی تھا کہ کہہ اٹھا.
’’ارے! عیدو بھائی تو یہیں ہیں ۔۔۔او عیدو بھائی! ۔۔۔۔دیکھو ڈاکٹر صاحب تمہیں بلا رہے ہیں ۔۔۔۔‘‘
ڈرائیور کی آواز پر عیدو بھائی پانی کی نالی کی منڈیر درست کرتے کرتے اٹھ کھڑے ہوئے اور کار کی طرف لپکے ۔ کار کے قریب پہنچ کر کچھ کہنے کے لئے وہ منہ کھولنا ہی چاہتے تھے کی ڈاکٹر بن خادم انہیں گھورتے ہوئے بولے.
’’یہ تمہارے کھیت میں بجوکا کیوں کھڑاہے عیدو بھائی ؟۔۔۔۔۔کیا میں نے یہ زمین تمہیں اسی لئے دی ہے؟۔۔۔میں نے تمہیں زمین دیتے ہوئے اس گاؤں میں موجود کھیتی باڑی کا اصول بتا کر کہا نہیں تھا کہ تم بھی اپنے کھیت میں بجوکا نہیں لگاؤ گے ؟؟۔۔۔۔تم کو معلوم ہے نا کہ میں کھیتی باڑی کو زمین اور ہر طرح کی سہولت صرف اسی لئے دیتا ہوں کہ تم لوگ اپنا پیٹ بھر سکو ۔۔۔۔مگر صرف اپنا پیٹ بھرنے کیلئے چھوٹے چھوٹے معصوم پرندوں کو بھوکا رہنے پر مجبور مت کرو ۔‘‘
’’ہاں !ڈاکٹر ساب !۔۔۔۔اوکا ہے نا ۔۔۔۔ہمارا بٹوا ہے نا۔۔۔۔رمجو ۔۔۔دراسل واہی کہے را کی ۔۔۔۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا ۔۔۔بس تم ابھی جاؤ اور بجوکا کو اپنے کھیت سے اکھاڑ پھینکو ۔۔۔۔اور سنو عیدو بھائی! اگر دوبارہ کھیت میں بجوکا دکھائی دیا تو میں نے تم کو کھیتی کیلئے جو زمین دی ہے اور جو بہت ساری سہولیات دیتا ہوں وہ سب چھین لوں گا سمجھے ۔۔۔۔ان بیچارے چھوٹے چھوٹے پرندوں کو بھی پیٹ ہوتا ہے ۔۔۔ان کو بھی بھوک لگتی ہے ۔۔۔۔۔ان کو بھی اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے ۔۔۔۔اور وہ بھی خدا کی مخلوق ہیں اور خدا کی زمین کی پیداوار میں ان کا بھی حق ہوتا ہے ۔۔۔مگر ہم لوگ کھیتوں میں بجوکا کھڑاکر کے اپنے ذرا سے فائدے کے لئے ان معصوم جانوں کا حق چھین لیتے ہیں۔۔۔خبردار جو آئندہ ایسی غلطی کی تو۔۔۔۔جاؤ اور اکھاڑ پھینکو اسے ۔۔۔‘‘ ’’اچھا ساب!‘‘
اتنا کہہ کر عیدو بھائی اپنے کھیت کی طرف جا نے کیلئے مڑے تو ڈاکٹر بن خادم نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آ نسو ٹپک پڑے اور انہوں نے ایک سرد آ ہ بھر کر ڈرائیور کو کار آ گے بڑھانے کو کہا ۔
ڈرائیور نے اپنی طرف کا کھلا ہوا دروازہ بند کیا اورانجن اسٹارٹ کر کے کار آ گے بڑھا دی ۔کار دوبارہ آہستگی سے آگے بڑھنے لگی تو اس نے کن انکھیوں سے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر کار میں لگے شیشے میں ان کا چہرہ دیکھا ۔ ان کے ہونٹوں کی پُرسکون مسکراہٹ غائب تھی ۔انہوں نے اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ رکھا تھا ۔ ان کی آنکھوں کے کنارے بھیگے ہو ئے تھے ۔ ان کی پیشانی پر بل تھے اور گہری گہری سانسیں لینے سے ان کی نتھے پھول رہے تھے ۔۔۔وہ آہستہ روی سے کار آ گے بڑ ھا رہا تھا ۔
تھوڑی دیر بعدکار حویلی کے وال کمپائونڈ میں داخل ہوگئی ۔ڈاکٹر بن خادم کار سے اترے اور بو جھل قدموں سے حویلی کے صدر درواز کی طرف بڑھ گئے.
حویلی کے ایک کمرے میں پہنچ کر انہوں نے اپنا عمامہ اتار کر ایک اسٹول پر رکھا اور خود کو صوفے پر اوندھا گرا لیا۔ تھوڑی دیر تک وہ صوفے پر یونہی پڑے گہری گہری سانسیں لیتے رہے پھر سر اٹھا کر صوفے پر ہی پڑا ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کردیا ۔ انہیں ٹی وی کے اسکرین پر امریکی صنعت و حرفت کا مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر آگ اور دھوئیں اگلتا نظر آیا اور نیوز ریڈر کی آواز ان کے کان کے پردوں سے ٹکرائی.
’’آج امریکی ائیر لائنز کے دو مسافر بردار جہاز اغوا کر لئے گئے. اغواکے تھوڑی دیر بعد اغوا کاروں نے دونوں جہازوں پر مکمل کنڑول کر کے ان کا رخ امریکی ورلڈ ٹریڈ سنیٹر کی طرف موڑ دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دونوں جہاز اس سے ٹکرا دیئے ۔ یکے بعد دیگرے ہونے والی ٹکر سے امریکہ کا ۱۱۰؍ منزلہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر زمین پر بیٹھتا چلا گیا اور ان جہاز وں میں موجود مسافروں کے ساتھ ہی ٹریڈ سنیٹر میں موجود تقریباً پانچ ہزار افراد بھی لقمہ اجل بن گئے ۔‘‘ نیوزریڈر کی آواز تھمی اور ٹی وی پر دوجہاز پرواز کرتے دکھائی دیئے ۔ دونوں ہی ورلڈ ٹریڈسینٹر کے پس منظر سے اس کے قریب آتے نظرآئے اور پھر انہوں نے دیکھاکہ ایک جہاز برق رفتاری کا مظاہرہ کر تا ہوا سیدھا ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گیا ۔ ٹریڈ سینٹر آگ کے ساتھ ساتھ کالے دھوئیں بھی اگلنے لگاپھر چند ثانیے بعد دوسرا جہاز بھی دھواں اور آ گ اگلتی اس عمارت سے اس تیزی سے ٹکرایا کہ اس کا اگلا سرا عمارت کی دوسری سمت سے باہر کی طرف جھانکنے لگا اور پھر پورا ورلڈ ٹریڈ سینٹر آگ کے ساتھ دھوئیں اگلتا زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ ٹی وی اسکرین پر اس منظر کو دیکھ کر ڈاکٹر بن خادم نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ ان کے ماتھے پر شکنیں پڑگئیں اور ذہن کی اسکرین پر ان کے بچپن کا ایک منظر اجاگر ہو گیا ۔
وہ ایک کھیت میں کھڑے اس بجوکا کو حقارت سے دیکھ رہے ہیں جسے ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم ہاتھوں نے کھیت کی زمین سے اکھاڑ پھینکا ہے ۔ بجوکا کا مٹی کی ہانڈی کا سر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھراپڑا ہے ۔ ان کا معصوم ذہن طیش میں آ گیا ہے اور وہ آ گے بڑھ کر بجوکا کے دونوں ہاتھوں پر پیر رکھ کر کھڑے ہو گئے ہیں پھر نیچے جھک کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی پوری طاقت لگاکر کھڑے ہو گئے ہیں ۔ بجوکا کے دونوں ہی ہا تھ چٹاخ چٹاخ کی آواز کے ساتھ ٹوٹ گئے ہیں ۔ اس کے بعد اس کاا یک پیر بھی انہوں نے توڑ کر ایک طرف پھینک دیاہے ۔۔۔۔بجوکا کی یہ درگت دیکھ کر ادھر اُدھر درختوں پر دبکے بیٹھے پر ندے کھیت کی تیار فصل سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے لئے اترنے لگے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں ہیں اور ہونٹوں پر ایک ابدی مسکراہٹ پھیل گئی ہے ۔ انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر سر نیچے جھکا لیا ہے ان کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے نکل کر کھیت کی زمین میں جذب ہو گئے ہیں اور ان کی نظر بجوکا کے کھڑے رہنے کی جگہ پر جا پڑی ہے ۔ انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر کے ٹوٹے بکھرے بجوکا پر حقارت سے تھوک دیا ہے۔ اپنے ذہن کی اسکرین پر دھندلکا چھانے کے بعد انہوں نے ٹی وی اسکرین پر دیکھا ۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹرکی فلک سے باتیں کرتی پرانی تصویر اس پر اجاگر تھی ۔ اسے دیکھ کر انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر نہیں بلکہ وہ بھی ایک بجوکا ہے ۔۔۔۔۔ایک بہت بڑا ظالم بجوکا۔۔۔جو دنیا کے چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک کے معصوم انسانوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے اپناہا تھ پھیلانے اور سر اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتے ہی ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا ۔ انہوں نے دوایک گہری گہری سانسیں لے کر اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر کھول بند کیں اور صوفے پڑا ریموٹ اٹھا کر پوری طاقت اور حقارت سے ٹی وی پر موجود ورلڈ ٹریڈ سینٹر نامی ظالم بجوکا کو دے مارا اور اپنا ماتھا صوفے پر ٹیک گہری گہری سانسیں لینے لگے

طاہر انجم صدیقی ( مالیگاؤں، مہاراشٹر، انڈیا)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
جہان باقی پی ڈی ایف میں پڑھیں