اوس پڑی تھی رات بہت اور ہلکی تھی گرمائش پر
سِیلی سی خاموش میں، وہ بولے تو فرمائش پر
فاصلے ہیں بھی اور نہیں، ناپا تولا کچھ بھی نہیں
لوگ بضد رہتے ہیں پھر بھی رشتوں کی پیمائش پر
منہ موڑا اور دیکھا کتنی دُور کھڑے تھے ہم دونوں
آپ لڑے تھے ہم سے بس اِک کروٹ کی گنجائش پر
کاغذ کا اِک چاند لگا کر رات اندھیری کھڑکی میں
دِل میں کتنے خوش تھے اپنی فرقت کی آرائش پر
دِل کا حجرہ کتنی بار اُجڑا بھی اور بسایا بھی
ساری عمر کہاں ٹھہرا ہے کوئی ایک رہائش پر
دھُوپ اور چھاؤں بانٹ کے تم نے آنگن میں دیوار چنی
کیا اتنا آسان ہے زندہ رہنا اس آسائش پر
گلزار