- Advertisement -

لہو میں ارض و سما بھر کے بھی نہیں بھرتا

شاہد ذکی کی ایک اردو غزل

لہو میں ارض و سما بھر کے بھی نہیں بھرتا
یہ دل یہ کاسہ _ آوارگی نہیں بھرتا

جو زخم ہیں نظر انداز اندمال میں ہیں
بہت خیال ہے جس کا وہی نہیں بھرتا

مرے نقوش مرا دائمی تعارف ہیں
میں کوئی رنگ کہیں عارضی نہیں بھرتا

زمیں کی اپنی بقا ہے ہرے درختوں میں
کسی کا دامن _ خالی کوئی نہیں بھرتا

سفر کرو کہ تجسس کی بھوک مٹ جائے
سکون سے شکم _آگہی نہیں بھرتا

یہ آگ روز نیا پن پہن کے آتی ہے
کچھ اس لیے بھی محبت سے جی نہیں بھرتا

ازل سے ہوں غم_ آئندگی اٹھائے ہوئے
یہ زخم وہ ہے جسے وقت بھی نہیں بھرتا

سمے کی آخری آرام گاہ خموشی ہے
یہ شہر گر دم_ صحرا یونہی نہیں بھرتا۰

مرا چراغ _ بدن خالی خاک تھا شاہد
اگر وہ مجھ میں زر _ شعلگی نہیں بھرتا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شاہد ذکی کی ایک اردو غزل