ابرِ ریشم کی طرح مجھ پہ وہ چھانے والا
میرے حصّے کے غموں کو بھی اٹھانے والا
جانے کیوں شہرِ خموشی میں وہ رہتا ہے اب؟
اپنی آنکھوں سے مرے آنسو بہانے والا
اب سنا ہے وہ اندھیروں میں رہا کرتا ہے
طاقِ مژگاں پہ دیے روز جلانے والا
تیری ہر بات رلاتی ہے مجھے رہِ رہِ کر
زندگی تیرا نہیں لہجہ بھلانے والا
کیوں وہ آنکھوں میں سمندر لیے پھرتا ہے اب؟
خود ہی جو ہجر کی سوغات تھا لانے والا
دوستی راس نہیں آئی ہمیں اے ناہید
ہم چراغوں کو جلانے وہ بجھانے والا
دستکیں دیتی رہی میرے دریچوں پہ ہوا
کوئی اندر نہیں تھا اُس کو بلانے والا
اشک بہتے ہیں تو بہتے ہی چلے جاتے ہیں
کوئی مجھ کو نہیں خاموش کرانے والا
جانے کیوں ختم نہیں ہونے کو آتا ناہید
زندگی کا یہ کٹھن رستہ تھکانے والا
ناہید ورک