میں بیر بہوٹی کی تلاش میں تھا۔
کہاں کہاں نہیں بھٹکا۔
نامعلوم اور خوابیدہ عدم کو ممکنات میں لے آیا۔
ساتوں آسمان، تمام جنتیں، سارے جہنم۔
یہاں تک کہ تخلیق کی دیوار گریہ تک بھی جا پہنچا۔
چیخوں اور کراہوں کی موسلادھار بارش کی پھسلن کو ان دیکھا کر کے۔
نا امیدی کے بھنور میں امید کے پر لگا کر
روح کی بے کسی کو متاعِ عزیز جان کر
بدن کی شکستگی و کہنگی کو مومیائی بنا کر
نفس کی منہ زوری کو لگام ڈال کر
ہر خواہش، ہر امید، ہر تمنا، ہر چاہت کو پیچھے دھکیلتے۔۔ ۔۔
فقط بیر بہوٹی کو پانے کی چاہ میں۔۔ ۔۔ ۔
ایک جھلک دیکھنے کی آرزو میں۔۔ ۔۔ ۔
میں دیوار پر چڑھ گیا۔ اور اب میرے سامنے تھے، تمام مناظر، تمام موجودات۔۔ ۔ ساحل پر پڑی کسی مردہ سیپ کی مانند۔۔ ۔ بے ٹھور۔۔ ۔ بے سدھ۔۔ ۔ بے بال وپر۔۔ ۔ بے پا۔۔ ۔۔ بے بود۔۔ ۔ مگر بیر بہوٹی۔۔ ۔ بیر بہوٹی کہاں تھی۔۔ ۔
کسی نے مجھ سے کہا تھا۔۔ ۔
’’ اس کی تلاش تو بہت آسان ہے۔۔ ۔
اسے پانی کی تلاش ہے۔۔ ۔۔
توُ اسے پانی کی بھینٹ دے اور وہ تجھے مل جائے گی۔۔ ۔ ‘‘
پر میں نہ مانا۔ میں مان بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں تھی۔
’’پانی جیسی حقیر شے۔۔ ۔ مجھے بیر بہوٹی کے شایانِ شان نہیں لگتی۔۔ ‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ تُو ماننے والا نہیں۔۔ ۔ اگر ماننے والا ہوتا تو بھلا بیر بہوٹی کی تلاش ہی کیوں ہوتی تجھے، وہ خود تجھ تک پہنچ جاتی۔ جا پھر اسے اپنے طریقے سے تلاش کر۔ ‘‘
سوچوں کو پرے ڈال کر میں دیوار سے نیچے اترا۔۔ ۔۔ اور بڑبڑایا، ’’اگر اسے پانی کا ہی تحفہ دینا ہے تو یہ پھر میرے مطابق ہو گا۔۔ ۔ ’’میں ‘‘۔۔ ۔ میں ہوں۔۔ کوئی مشت غبار تو نہیں ہوں۔۔ ‘‘
اب میں ساتوں سمندروں کی جستجو میں تھا۔ بیر بہوٹی کے لئے، اس کی شان کے مطابق، تحفے کی تلاش میں۔۔
اور
وہیں دور کہیں، کسی سوکھے صحرا میں لب دم کوئی شخص، اپنی بے بسی پر بے اختیار رو پڑا۔۔ اسکی آنکھوں سے چند قطرے گرے۔۔ ۔ اور ریت میں جذب ہو گئے۔۔ ۔
بہر بہوٹی کو اس کی بھینٹ مل گئی تھی
عامر صدیقی