زرِ چراغ سرِ آب رکھ رہا ہوں میں
کنارِ چشم ترا خواب رکھ رہا ہوں میں
یہ دل کا طاق اماؤس کی رات ہے، اس میں
ترے خیال کا مہتاب رکھ رہا ہوں میں
دیارِ جاں میں محبت کے پھول کھلنے لگے
خزاں میں خطۂ شاداب رکھ رہا ہوں میں
جہاں پہ پیاس میں پانی بھی بلبلاتا ہے
اک ایسے دشت کو سیراب رکھ رہا ہوں میں
عتیق مجھ کو نیا راستہ بنانا ہے
چراغ و آئنہ احباب رکھ رہا ہوں میں
ملک عتیق