آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریر

سرخ لباس کی سرخوشی

شاکرہ نندنی کی ایک اردو تحریر

shakira nandni

یہ کہانی ہلکے پھلکے مزاح اور رومانوی دلکشی کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ یہ خطرات مول لینے اور غیر متوقع جگہوں پر خوشیاں تلاش کرنے کی طاقت کو اجاگر کرتی ہے۔ کہانی میں جاندار کردار اور خوشگوار پیغام شامل ہے جو محبت میں ثابت قدمی کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ یہ رومانوی مزاحیہ اور خوش کن کہانیوں کے شائقین کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے!

کبھی کبھار محبت غیر متوقع جگہوں پر ملتی ہے، اور کبھی آپ کو دعوت کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ صرف ایک دلکش مسکراہٹ اور تھوڑے سے حوصلے کی!

ماسکو کی یخ بستہ راتوں میں، تین دوست یولیا، نتاشا، اور اناستاسیا نے اپنی محبت کی تلاش کے سفر کا ایک منفرد انداز اپنایا۔ وہ تینوں بہترین دوست تھیں، اور ان کی مشترکہ خواہش تھی شادی کرنا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کے ارد گرد لڑکوں کا نہ ہونا تھا یا پھر وہ لڑکے جو ان کے خوابوں کے شہزادے سے کوسوں دور تھے۔

ایک رات، یولیا نے ایک دلچسپ تجویز دی:
"کیوں نہ ہم شہر کی ہر بڑی تقریب میں بنا دعوت کے جائیں؟ ہو سکتا ہے کہ وہاں ہمارے خوابوں کے شہزادے مل جائیں!”

نتاشا اور اناستاسیا نے قہقہہ لگایا، مگر وہ جانتی تھیں کہ اس میں کوئی بُری بات نہیں۔ اور یوں، تینوں نے اپنے دلکش سرخ لباس پہن کر اپنی "تقریبی مہم” کا آغاز کیا۔

پہلی تقریب ایک بڑی کمپنی کی کارپوریٹ پارٹی تھی۔ تینوں بڑی ہوشیاری سے اندر داخل ہوئیں اور ایسے ظاہر کیا جیسے وہ وہاں کی اہم شخصیات ہوں۔ مگر جلد ہی ان کی حقیقت سامنے آ گئی جب کمپنی کے سی ای او نے انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔
"آپ تینوں کون ہیں؟” سی ای او نے کڑک دار آواز میں پوچھا۔
یولیا نے جلدی سے جواب دیا، "ہم وہ ہیں جو آپ کی پارٹی کو یادگار بنا سکتی ہیں!”
سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے، اور یوں وہ پہلی بار تقریب سے ناکام لوٹ آئیں۔

دوسری کوشش فیشن شو میں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ماڈلز اور ڈیزائنرز کی دنیا میں یقیناً کوئی دلکش شہزادہ ملے گا۔ مگر ہوا یوں کہ جب وہ ریمپ کے قریب پہنچیں، ایک ماڈل نے ان کا سامنا کیا:
"کیا تم تینوں بھی ماڈلز ہو؟”
اناستاسیا نے کہا، "نہیں، ہم دلوں کی ماڈلز ہیں!”
یہ جملہ سن کر ماڈل ہنس پڑا مگر انہیں تقریب سے باہر نکال دیا گیا۔

اب کی بار انہوں نے ایک شادی میں جانے کا منصوبہ بنایا۔ لڑکیاں انتہائی پرجوش تھیں کیونکہ انہیں لگا کہ اس تقریب میں محبت ضرور ملے گی۔
جب وہ وہاں پہنچیں، تو سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا، جب تک کہ دولہا کی بہن نے انہیں پہچان لیا۔
"آپ تینوں یہاں کیسے؟”
نتاشا نے دلکشی سے جواب دیا، "ہم دل کے قریب ہیں، بس اسی لیے یہاں ہیں!”
دولہا کی بہن نے انہیں موقع دیا اور وہ تقریب کا حصہ بن گئیں۔

کئی ناکام کوششوں کے بعد، تینوں ایک ویلنٹائن پارٹی میں پہنچیں۔ وہاں ماحول خوشگوار تھا، اور موسیقی ہر دل کو گدگدا رہی تھی۔
یہاں انہیں تین لڑکے ملے: دیمتری، الیگزینڈر، اور میخائل۔ تینوں نے یولیا، نتاشا، اور اناستاسیا کی بے ساختہ مزاح اور خوش مزاجی سے متاثر ہو کر بات چیت شروع کی۔ جلد ہی یہ ملاقات ایک دلچسپ دوستی میں بدل گئی۔

یولیا نے دیمتری سے کہا، "ہمیں تقریب میں گھسنے کی عادت ہے، مگر دلوں میں گھسنے کی نہیں!”
دیمتری نے مسکراتے ہوئے کہا، "شاید دلوں میں گھسنے کا وقت آ گیا ہے۔”

یہ تینوں لڑکیاں جنہوں نے تقریباً ہر تقریب میں ناکام کوشش کی تھی، آخرکار اپنے خوابوں کے شہزادے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ویلنٹائن پارٹی ان کے لیے ایک نئی شروعات تھی، جہاں تین خوبصورت محبتوں نے جنم لیا۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ میرے والد ایک مسلمان تھے، جن کا تعلق اصل میں بنگلور، بھارت سے تھا، اور وہ 1947 میں تقسیم کے دوران پاکستان منتقل ہوئے۔ میری مرحوم والدہ، جو بعد میں ہندو مت میں تبدیل ہوئیں، کا تعلق ڈھاکہ سے تھا، جو اس وقت سابقہ مشرقی پاکستان تھا۔ میرا بچپن روس میں گزرا، جہاں مجھے ایک ثقافتی طور پر بھرپور ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ 12 سال کی عمر میں، میری زندگی میں ایک بڑا موڑ آیا جب میرے والدین میں علیحدگی ہوگئی، اور میری والدہ اور میں فلپائن منتقل ہوگئے۔ وہاں میں نے اپنی اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کی، جو میرے مستقبل کے کیریئر کی بنیاد بنی۔ 2001 میں، میں نے سنگاپور میں ماڈلنگ کے شعبے میں اپنے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا۔ میرا شوق اور محنت جلد ہی مجھے مختلف ڈانس پروگراموں میں کارکردگی دکھانے کے مواقع فراہم کرنے لگی، جس کے بعد میں نے چیک ریپبلک میں اپنے کیریئر کو مزید آگے بڑھایا، جہاں میں نے سویٹ موڈلیک کے ساتھ اداکارہ، ڈانسر، اور ماڈل کے طور پر کام کیا۔ مجھے فخر ہے کہ میں پہلی پاکستانی ہوں جس نے سویڈن کی ایک نامور یونیورسٹی سے ماڈلنگ اور ڈانسنگ میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ 2013 میں، میں نے ہندو مت کو اپنا لیا، جو میرے نقطہ نظر اور فنکارانہ اظہار میں گہرا اثر رکھتا ہے۔ آج، میں پورٹو میں بوم ماڈلنگ ایجنسی میں ڈپٹی مینیجر کے طور پر کام کر رہی ہوں۔ مجھے اپنے فن اور علم کو نوجوان ماڈلز اور ڈانسرز کے ساتھ شیئر کرنے اور انہیں متاثر کرنے کا موقع حاصل ہے۔ میری کہانی ایک منفرد ثقافتی رنگا رنگی اور عزم کی عکاس ہے، اور میں امید کرتی ہوں کہ یہ ماڈلنگ اور ڈانس کی دنیا میں اپنا خاص مقام بنائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button