- Advertisement -

مسلسل اشک افشانی سے پہلے

عارف امام کی اردو غزل

مسلسل اشک افشانی سے پہلے
لہو کتنا بہا پانی سے پہلے

یہ دریا خشک ہونے پر تُلا تھا
کسی سقّے کی قربانی سے پہلے

یہ درگاہِ محبت ہے مری جاں
یہاں سینہ ہے پیشانی سے پہلے

بہت سادہ سا تھا ایماں ہمارا
عقیدوں کی فراوانی سے پہلے

کوئی تصویر ہو کر رہ گیا ہے
یہ دل شیشہ تھا حیرانی سے پہلے

علَم اک اَدھ جلا نیزہ ہؤا تھا
خرابے کی نگہبانی سے پہلے

بلائے بدگمانی رقص میں تھی
بھرے شہروں کی ویرانی سے پہلے

کسے مقدور ہے مصرع لگائے
اجل کے مصرعِ ثانی سے پہلے

ہمارے قاتلوں کا نام لینا
ہماری فاتحہ خوانی سے پہلے

عارف امام

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عارف امام کی اردو غزل