عزیز پوچھ رہے ہیں ، کہاں کی عورت ہے؟
وہ چاند دیکھ رہے ہو؟ وہاں کی عورت ہے!
کتابیں پڑھتی ، تخیّل میں سانس لیتی ہوئی ،
وہ ایک خواب ہے یعنی گماں کی عورت ہے!
دلوں پہ لفظوں کے ناخن سے شعر کھینچتی ہے،
تمہیں خبر ہے کہ وہ کس جہاں کی عورت ہے؟
دہر کے خفیہ نفق میں شگاف کرتی ہوئی ،
وہ اس زمیں کی نہیں آسماں کی عورت ہے!
پتہ جو پوچھا ، تو رکھ کر یوں اپنے دل پر ہاتھ
رقیب کہتے ہیں دیکھو یہاں کی عورت ہے!
گِرے تو اٹھتی ہے ہنستی ہے ہاتھ جھاڑتی ہے
وہ حوصلے کی زمیں پر چٹاں کی عورت ہے!
ایمان ندیم ملک