میرے واجب الاحترام پڑھنے والو کو میرا اداب
قران مجید فرقان حمید کی سورہ الابراہیم کی ایت نمبر 41 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(41)
ترجمعہ کنزالایمان:
"اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا”
قیامت ، روز محشر اور حساب کتاب کا دن برحق ہے اور جس نے بھی اس کا انکار کیا یعنی منکر ہوا وہ مسلمان نہیں یوم حساب یعنی قیامت کے دن پر ایمان نہ رکھنے والے ملعون بھی اس دنیا میں موجود ہیں لیکن وہ بھی دیکھ لیں گے کہ قیامت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ آئے گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو آپ لوگوں نے سنا ہوگا کہ یہ دنیا ایک امتحان کا کمرہ ہے اور زندگی وہ علم ہے جسے پڑھ کر ہم نے اس امتحان کی تیاری کرنی ہے جس طرح امتحان کا پرچہ حل کرنے کے لئے ایک وقت دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت دیا ہوا ہے جیسے ہی وقت ختم ہوتا ہے تو پھر ہمیں ایک پل کی بھی مہلت نہیں ملتی اور ہمیں کمرہ امتحان سے باہر نکلنا پڑتا ہے اسی طرح یہاں بھی وقت ختم ہوتے ہی واپس ہمیں اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہوتا ہے اور جس دن ہمارے Result کا دن ہوتا ہے تو کچھ بڑے خوش ہوتے ہیں اور کچھ افسردہ ہوتے ہیں کیونکہ جنہیں یہ علم ہوتا ہے کہ ہم نے تیاری بھی اچھی کی تھی اور امتحانی پرچہ میں موجود سوالوں کے جوابات بھی صحیح دیئے ہیں لہذہ ہم ضرور پاس ہوں گے اور جنہیں یہ علم ہوتا ہے کہ ان کر پرچہ صحیح حل نہیں ہوا تھا تو وہ افسردہ ہوں گے بالکل اسی طرح قیامت کے دن وہ لوگ خوش ہوں گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت یعنی زندگی میں اچھے اعمال کئیے اور اس رب کے احکامات پر عمل کیا اور وہ لوگ افسردہ ہوں گے جنہوں نے برے اعمال کیئے ہوں گے لیکن اب کوئی مہلت نہیں بلکہ وہ دن تو حساب کتاب کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نتیجہ سنانے کا دن ہر عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ہمیں حساب دینا ہوگا یعنی ایک اہل ایمان مسلمان کا یہ سچا عقیدہ ہونا چاہئے کہ ایک دن آئے گا جب ہمیں ہمارا نتیجہ سنایا جائے گا بس وہ دن قیامت کا ہوگا روز محشر کا ہوگا یعنی حساب کتاب کا دن ہوگا ہمارے یہاں بقول شاعر
جسے دیکھو فکر دنیا میں لگا ہوا ہے
سب فکر آخرت کی بھلائے بیٹھے ہیں
جیسے ہمیشہ ہی رہنا ہے یہیں
اس طرح دنیا سے دل لگائے بیٹھے ہیں
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ باری تعالی نے صاف اور واضح الفاظ میں قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 13 اور 14 فرمادیا کہ
وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَ نُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰىہُ مَنۡشُوۡرًا (13)
ترجمعہ کنزالایمان:
اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگا دی اور اس کے لیے قیامت کے دن ایک نوشتہ نکالیں گے جسے کھلا ہوا پائے گا۔
اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفۡسِکَ الۡیَوۡمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا (14)
ترجمعہ کنزالایمان:
فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ (نامۂ اعمال) پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے ۔
ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ اس عارضی دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے اسے فرشتے لکھ لیا کرتے ہیں اور پھر بروز قیامت وہ اس کے سامنے کھول دیا جائے گا اور اس کے کئے ہوئے اعمال نامئہ اعمال کی شکل میں اس کے ہاتھ میں تھما دئے جائیں گے اور اللہ تعالی حکم دے گا کہ اپنے اعمال پڑھ لو تم خود ہی اپنے حساب کا فیصلہ بخوبی کرلوگے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب یہ دیکھئیے کی حساب کتاب والے دن یعنی بروز قیامت حساب کس طرح سے ہوگا اور لوگ کس طرح ان تمام مراحل سے گزریں گے جو قیامت کے دن کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں ہمارے علماء اور فقہا نے اس بارے میں کئی کتابیں بڑی تفاصیل کی ساتھ لکھی ہیں جنہیں اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے پہلے ہر اہل ایمان مسلمان کو پڑھنا چاہئے تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ حساب کتاب والے دن کیا ہوگا اور اگر مہلت مل جائے تو اپنی زندگی میں اس کی تیاری کرلیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ الانبیاء کی آیت 47 میں ارشاد فرمایا کہ
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(47)
ترجمعہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہو گا، اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اسے لے آئیں گے ، اور ہم کافی ہیں حساب کو۔
یعنی قیامت کے روز دنیا کی طرح ناانصافی نہیں ہوگی بلکہ ہر ایک ساتھ انصاف ہوگا کسی پر بھی کوئی ظلم نہیں ہوگا اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی حقتلفی دنیا میں کسی کے ساتھ ہوئی ہوگی تو وہ بھی سامنے آ جائے گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بات یاد رکھئے کہ انسان جس طرح کی عادتیں لیکر اس دنیا میں اپنی زندگی گزارتا ہے ان عادتوں میں اگر کوئی بری خصلت ہے جس کا وہ عادی ہوجاتا ہے وہ عادت اسے قیامت کے روز بھی پریشان کرے گی اور اگر عادت یا خصلت اچھی ہوئی تو وہ اس کے کام آئے گی بہرحال جو لوگ یہاں پر اپنی عادت اور خصلت نہیں بدلیں گے وہ اپنے خلاف خود ہی ایک اور گواہ ہمراہ لے جاکر قیامت میں اپنی گرفتاری کا سامان کریں گے۔سوچ لیجئے! آج آپ کہاں کھڑے ہیں اور آپ کے شب و روز کیسے ہیں اور کل ان کا انجام کیاہوگا؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت میں لوگوں کو تین بار اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا پڑے گا پہلی اور دوسری پیش ” لے دے ، معذرت اور معافی ” کا سلسلہ ہوگا جبکہ تیسری پیشی میں نامئہ اعمال اڑائیں جائیں گے تو کچھ لوگ ان کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑیں گے اور کچھ بائیں ہاتھ میں علماء کرام اس کی تفصیل یوں لکھتے ہیں کہ پہلی اور دوسری پیشی میں لوگ کہیں گے کہ یااللہ تمہارے پیغمبر ہمارے پاس آئے ہی نہیں تو ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ تجھے کیا پسند ہے اور کیا نہیں ؟ علماء لکھتے ہیں کہ یہ وہ ہی لوگ ہوں گے جو دنیا میں بری عادتوں کے عادی تھے وہ سوچیں گے کہ شاید اسی عادت کے سبب چھٹکارہ مل جائے لیکن جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ہاتھ لکھی ہوئی تحریر اعمال نامہ کی شکل میں دے گا تو وہ بیبس ہوجائیں گے اور پھر معافی مانگیں گے کہ یااللہ ہم سے غلطی ہوگئی ہمارا یہ غلط کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا یہ تو ہم کسی کے بہکاوے میں آگئے تھے اور غلطی کر بیٹھے تو معاف کرنے والا ہے ہمیں معاف فرما دے اور پھر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مصلحت پر منحصر ہے کہ وہ اس وقت کیا فیصلہ کرتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح
”حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہےکہ حضورﷺ کا ارشاد ہےکہ : تین جگہ پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔
1: جب ترازو راست کی جائے گی یہاں تک کہ اسےمعلوم ہوجائے کہ ترازو ہلکی رہی یا بھاری
2: جب اعمال نامے ملیں گے (او ران سے کہا جائے گا)اپنا اعمال نامہ پڑھیئے! یہاں تک کہ وہ جاپڑے ان کے داہنے ہاتھ میں یا پشت کی طرف سے بائیں ہاتھ
3: اس وقت جب پُل صراط کو جہنم پر لگایاجائے گا۔”
یعنی باز پرس اور احتساب کے ان مرحلوں میں کوئی یارکام آئے گا نہ رشتہ دار ، کوئی وکیل ملے گا نہ اور کوئی مددگار! بس جس کے سر پر پڑے گی وہی بھگتے گا۔ روئے گا تو کوئی آنسو پونچھنے والا بھی دکھائی نہیں دے گا، تڑپے گا تو کوئی بھی دلاسا نہیں دے گا۔باقی رہی شفاعت! سو وہ بھی خدا ہی فیصلہ کرے گا کہ اس کی کہاں گنجائش ہے اورکہاں نہیں؟ شفاعت کےمعنی اصل میں مجرموں کی حمایت نہیں بلکہ ان کی بعض کوتاہیوں کے سلسلے میں فرد جرم کے ساتھ ممکن معذرتوں کو نتھی کرکے پیش کرنا ہے کہ الہٰی! ان پر ہمدردانہ غور فرما کر ان سے درگزر فرما۔ اس پر حق تعالیٰ ان کو بتا دیں گے کہ وہ اس قابل ہیں یانہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آخرت ایک ایسا یوم حساب ہے کہ جہاں ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا اور ہر ایک شخص اپنی آنکھوں سے رائی برابر نیکی او ربدی کے اثرات کا مشاہدہ کرسکے گا۔ اس لیے بیہوشی سے کچھ نہیں ہوگا اور نہ یہ غفلت وہاں کوئی وجہ معذرت تصور کی جائے گی۔ الحاج نواب سرنظامت جنگ بہادر مرحوم نے اپنے ایک مضمون میں کیا خوب کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
گذشتہ بیس برس سے میں قرآن کاخاص مطالعہ کررہا ہوں اور اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ اس کی تعلیمات کےمتعلق میرا کیا خیال ہے تو میں کہوں گا۔
”زندگی کے تمام اعمال میں ایمان اورعمل صالح پر اصرار، قرآن انسان کو اس کے خالق کا واسطہ دے کراس امر پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات و اعمال کا بیدارچشم دربان بن جائے اوراپنے آپ کو تزکیہ روح میں مصروف رکھے، جہاد رکھے کیونکہ اس کی ہر جنبش اس کی روح پراثر انداز ہوتی ہے۔ خیر سے خیر اور شر سے شر پیدا ہوتا ہے اور خیروشر اپنی جز آپ ہے۔” (رہنمائے قرآن ترجمہ)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے: کیاجانتے ہو ،مفلس (نادار) کسے کہتے ہیں ؟ ہم نے کہا۔ ہم تو اسے مفلس کہتے ہیں، جس کی جیب خالی ہو۔ فرمایا: (نہیں، یہ نہیں! اصل میں) میری اُمت کامفلس وہ ہےجو قیامت میں نماز، روزہ، اور زکوٰۃ لے کر آئے گا اور ساتھ ہی اس نے کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کا مال کھایا ہوگا۔ کسی کو قتل کیا ہوگا اور کسی کو مارپیٹا ہوگا۔ (غرض اس کے ذمے کچھ زیادتیاں ہوں گی)اب اس کی نیکیاں لے کر حقداروں میں بانٹ دی جائیں گی۔ اگر نیکیاں ختم ہوگئیں اور واجبات اس کے ذمے ابھی باقی رہے تو حقداروں کے گناہ بقدر ضرورت لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔پھر اسے لاد کر جہنم میں چلتا کیا جائے گا۔”
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پچاس ہزار سال کا قیامت والا دن کیسا ہوگا اس احتساب کا دائرہ کتنا وسیع ہوگا اورکس قدر ہمہ گیر ہوگا، زبان اس کے بیان سے قاصر ہے اس کی دہشت سے آنکھیں پھٹی پھٹی ہوں گی ۔ دل فگاراور احساسات زخمی ہوں گے، کوئی چاہے کہ فدیہ دے کر چھوٹ جائے تو اس کی بھی کوئی ممکن صورت نہ رہے گی۔کیونکہ فدیہ نام کی کوئی چیز بھی اس کے قبضے میں نہیں ہوگی۔ بس اگر اللہ تعالیٰ کی ذات کریم خود ہی مائل بہ کرم ہوجائے۔ اس لیے فرمایا کہ اس کی کچھ فکر ہے تو ابھی سے اس کی کچھ فکر کرلیجئے! کل اس کاوقت نہیں ہوگا اسی لئے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
” جس کے ذمے اس کے بھائی کا کوئی حق ہے، اس کاتعلق اس کے وقار سے ہو یا کسی اور شے سے، تو اسے آج اس سے معاف کرالینا چاہیے۔ اس (دن) سے پہلے جب دینار ہوں گے نہ درہم۔ (نہ پائی نہ پیسہ)”
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب تک پانچ چیزوں کےسلسلے میں باز پرس مکمل نہ ہوگی اس وقت تک ابن آدم کو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیاجائے گا(1) اس کی عمر کی بابت کہ کہاں کھوئی (2) او راس کی جوانی کی بابت کہ کن باتوں میں گنوائی (3) مال و دولت کی بابت کہ کہاں سے کمایا (4) او رپھر اسےکہاں خرچ کیا(5) او ریہ کہ جتنا علم پایا اس پر کتنا عمل کیا؟”
الغرض زندگی کے جتنے بھی مختلف احوال و ظروف ہیں سب کی بابت باز پُرس ہوگی ، وہ اقتدار ہو یا کاروبار، گھر بار ہو یا آرپار، راتیں ہوں یا دن، صحت ہو یا بیماری، خوشحالی ہو یا تنگدستی، اپنوں کا کوئی معاملہ ہو یا غیروں کا، دوستی کی کوئی بات ہو یا دشمنی کی، انسانوں کے متعلق ہو یا حیوانوں سے۔ بہرحال سب سے متعلق حساب کتاب ہوگا۔ قبر میں بھی اور حشر میں بھی۔ اس سے کسی کے لیے کوئی آشنا نہ ہوگا، نیک کا نہ بد کا، اب آپ اپنا جائزہ لےکر دیکھ لیجئے، ا س باز پرس کے آپ کس قدر متحمل ہیں اورجب خدائی چیکنگ شروع ہوتی ہے تو کیا بنے گا؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حساب کتاب برحق ہے اور اسی حساب کتاب والے دن کو روز قیامت ، روز محشر اور یوم حساب بھی کہا جاتا ہے اگر ہم اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت یعنی زندگی کو اپنے طور پر گزارنے میں مصروف ہیں اور قیامت کی کوئی تیاری نہیں کی تو یہ ہماری بدقسمتی کے ساتھ ساتھ بدنصیبی بھی ہے کیونکہ جب تک سانس قائم ہے تب تک ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم کی گئی غلطیوں اور گناہوں سے شرمندہ ہوکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی مانگ لیں اور توبہ واستغفار کرکے آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کی توفیق مانگ لیں وہ ذات کریم بڑا رحیم ہے معاف کرنے والا ہے اور جب انسان اس کی بارگاہ میں رو رو کر معافی مانگتا ہے تو یہ عمل اس رب تعالی کا پسندیدہ عمل ہے وہ بہت خوش ہوتا ہے اور آپ کے سارے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور یوں بروز محشر اس کی بارگاہ میں ہم سرخرو ہو جائیں گے بس آج سے عہد کرلیں کہ موت کو ہر وقت یاد کریں گے اور قیامت میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے کی تیاری شروع کردیں گے ان شاءاللہ بروز قیامت حساب کتاب والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہم پر چھما چھم برسیں گے اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شفاعت بھی ہمیں ملے گی ان شاءاللہ ۔ آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم