آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزیوسف صدیقی

پاکستان خالی ہو رہا ہے

ترک وطن پر مجبور لوگ

پاکستان خالی ہو رہا ہے۔ یہ جملہ سننے میں شاید ادبی یا جذباتی لگے، مگر حقیقت میں یہ ہمارے حالیہ قومی المیے کا سب سے تلخ اور سیدھا بیان ہے۔ صرف چھ ماہ کے عرصے میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اور یہ صرف اعداد و شمار نہیں، یہ ایک پوری قوم کے ذہن، ہنر، خواب اور امیدیں ہیں جو سرحد پار جا رہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے برسوں اس امید پر محنت کی کہ اس ملک میں ایک دن انہیں وہ عزت، روزگار، اور سہولیات ملیں گی جن کے وہ مستحق ہیں۔ مگر بدلے میں انہیں ملا ہے بے رحم مہنگائی، بدحال معیشت، اور نا امید مستقبل۔ آج کا پاکستانی نوجوان ہاتھ میں ڈگری لیے فیس بک پر بیرونِ ملک ویزوں کے اشتہارات دیکھ رہا ہے، کیونکہ یہاں اسے اپنی تعلیم، مہارت یا خواب کی کوئی قیمت دکھائی نہیں دیتی۔
پاکستان میں اب ایسا نظام جنم لے چکا ہے جس نے جینا ایک جنگ بنا دیا ہے۔ مہنگائی نے ایک عام گھر کے چولہے کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔ وہ مزدور جو دن بھر محنت کر کے کبھی اپنے بچوں کو کم از کم ایک وقت کا گوشت کھلایا کرتا تھا، اب آلو پیاز کے دام دیکھ کر آہیں بھرتا ہے۔ وہ سفید پوش طبقہ جو کبھی بجلی کا بل وقت پر دیتا تھا، اب قسطوں کی درخواستیں لے کر قطار میں کھڑا ہے۔ متوسط طبقے کی خودداری کا جنازہ نکل چکا ہے، اور اشرافیہ اسے دیکھ کر اپنی کامیابی پر نازاں ہے۔ ملک میں بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک پوری نسل جو کبھی پاکستان کا اثاثہ سمجھی جاتی تھی، اب حکومت اور نظام پر بوجھ بن چکی ہے۔ کیونکہ ہم نے نہ صنعتیں لگائیں، نہ روزگار کے مواقع پیدا کیے۔ ہم نے صرف بیانات دیے، وعدے کیے، اور پھر نئی حکومت آنے پر پچھلے وعدوں کو جھوٹا قرار دے کر نئی تقریریں کیں۔

بڑھتی ہوئی آبادی نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ وسائل محدود ہیں اور منہ زیادہ۔ نہ تعلیمی ادارے کافی ہیں، نہ اسپتال، نہ روزگار، نہ انصاف۔ ہر چیز کا بوجھ حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے، اور ریاست جیسے ایک کمزور پل کی طرح لرز رہی ہے۔

جب ایک ملک میں نا انصافی عام ہو جائے، روزگار نایاب ہو جائے، بنیادی ضروریات مہنگائی کی چھری تلے آ جائیں، اور عوام کا نظام پر اعتماد ختم ہو جائے، تو اس کا ایک فطری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان کے گلی محلوں میں آج صرف اندھیری راتیں نہیں، اندیشے بھی گھوم رہے ہیں۔ ڈکیتی، اغوا، قتل، چوری۔ اب صرف اخبارات کی سرخیاں نہیں، عام لوگوں کی روزمرہ کی کہانیاں بن چکی ہیں۔

یہ سب کسی فطری آفت کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسانوں کی پیدا کردہ وہ تباہی ہے جو بددیانتی، نا اہلی، اور خودغرضی سے جنم لیتی ہے۔ برسوں سے ہم ایک ایسے سیاسی کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں جس میں صرف کھلاڑی بدلتے ہیں، کھیل وہی رہتا ہے۔ سیاستدان اقتدار کی کرسی کے لیے لڑ رہے ہیں، عوام آٹے کی بوری کے لیے۔ وہ قوم جو ایٹمی طاقت ہونے پر فخر کرتی تھی، آج چینی لینے کے لیے لائن میں کھڑی ہے۔ وہ ملک جس نے دنیا بھر کو مہمان نوازی، غیرت اور خودداری کا درس دیا، آج اپنے ہی بچوں کو غیرملکی سفارتخانوں کے باہر قطار میں کھڑا دیکھ رہا ہے۔ مگر کیا سارا الزام صرف سیاستدانوں پر ہے؟ کیا عوام خود قصوروار نہیں؟ ہم نے ووٹ کو ایک کاروباری سودا بنا دیا، میرٹ کے بجائے برادری، سفارش، اور تعصب کو ترجیح دی۔ ہم نے اپنے حقوق کا سودا وقتی مفادات کے بدلے کر لیا۔ ہم نے صرف دوسروں کو کوسا، خود کبھی آئینہ نہ دیکھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی خالی ہو رہا ہے؟ ہاں، یہ خالی ہو رہا ہے۔ ذہنوں سے، خوابوں سے، امیدوں سے، اور اب جسمانی طور پر بھی۔ مگر اس خلا کو پُر کرنے کے لیے محض تقریریں کافی نہیں، عمل درکار ہے۔ اور وہ عمل صرف حکومت یا اداروں کی ذمہ داری نہیں، ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اجتماعی سطح پر شعور کی نئی لہر پیدا کرنا ہوگی۔ تعلیمی نظام کو نظریاتی اور عملی بنیادوں پر ازسرِ نو استوار کرنا ہو گا۔ سیاست کو خدمت سے جوڑنا ہو گا، نہ کہ کاروبار سے۔ عوام کو یہ سمجھانا ہو گا کہ تبدیلی نعروں سے نہیں، فیصلوں سے آتی ہے۔ حکمرانوں کو یہ باور کرانا ہو گا کہ عوام کوئی رعایا نہیں، بلکہ اصل طاقت ہیں۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان خالی ہو رہا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ابھی وقت ہے۔ اگر ہم نے آج بھی ہوش نہ کیا، تو شاید آنے والی نسلیں صرف تصویروں میں پاکستان دیکھیں، اور سوال کریں کہ جب سب کچھ ہاتھ میں تھا، تو تم نے سنبھالا کیوں نہیں؟

یوسف صدیقی

یوسف صدیقی

میرا نام یوسف صدیقی ہے اور میں ایک تجربہ کار کالم نگار اور بلاگر ہوں۔ میں نے 2009 سے تحریری دنیا میں قدم رکھا اور مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات عوام کے سامنے پیش کیے۔ میں نے روزنامہ دنیا میں مختصر کالم لکھے اور 2014 میں بہاولپور کے مقامی اخبار صادق الاخبار میں بھی مستقل لکھائی کا تجربہ حاصل کیا۔ اس کے علاوہ، میں نے ڈیجیٹل ویب سائٹ "نیا زمانہ" پر کالم شائع کیے اور موجودہ طور پر بڑی ویب سائٹ "ہم سب" پر فعال ہوں۔ میری دلچسپی کا مرکز سماجی مسائل، سیاست اور عمرانیات ہے، اور میں نوجوانوں اور معاشرتی تبدیلیوں کے موضوعات پر مؤثر اور معلوماتی تحریریں پیش کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔ بلاگ نویسی کا تجربہ: میں تقریباً 15 سال سے مختلف پلیٹ فارمز پر لکھ رہا ہوں۔ میری تحریریں عوامی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر مبنی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button