میاں، بیوی اور واہگہ
حسینہ معین سے دوستی اتنی پرانی ہے کہ ان کی کوئی بات ٹالنی ممکن نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب مجھے کسی کھیل کے پریمیئر پر لے گئیں تو میں کچھ زیادہ خوش نہیں تھی۔ آرٹس کونسل پہنچ کر معلوم ہوا کہ دبئی سے آنے والے تھیٹر گروپ ’’گونج‘‘ کا کھیل ’’میاں، بیوی اور واہگہ‘‘ کا پریمیئر ہے تو اندازہ ہوا کہ اس میں بٹوارے کی کہانی کسی دوسرے زوایے سے بیان کی گئی ہوگی۔ یہ میرا محبوب موضوع ہے۔
آرٹس کونسل کا آڈیٹوریم خنک تھا اور اس کے مدارالمہام احمدشاہ گرم جوشی سے آنے والوں کا استقبال کررہے تھے۔ اختری بیگم کی مدھر آواز میں مومن اور غالب کی غزلیں خواب وخیال کی دنیا میں لے جارہی تھیں۔ انتظار تھا گورنر سندھ کا، وہ آئے اور احمد شاہ انھیں شہر کے مشہور اور اہم لوگوں سے فرداً فرداً ملواتے رہے۔ حسینہ سے ملتے ہوئے انھوں نے بے ساختہ کہا ’’میں تو آپ کا پرانا فین ہوں‘‘۔ مجھ سے بھی وہ تپاک سے ملے۔ کچھ دیر میں دبئی سے آنے والے تھیٹر گروپ گونج کے کسی رکن نے پردے کے پیچھے سے اپنا تعارف کرایا۔ یہ پاکستان اور ہندوستان کے وہ نوجوان ہیں جو تھیٹر سے جڑے ہوئے ہیں اور اس میدان میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والی شادیاں خوشی سے زیادہ اذیت کا باعث بن جاتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دوسرے چوتھے دن گولہ باری ہوتی رہتی ہے۔ سرحدیں بند ہو جاتی ہیں، میاں اور بیوی اس انتظار میں رہتے ہیں کہ دونوں طرف کے افسران بالا کے مزاج کی چڑھی ہوئی کمان کب ذرا اترے اور کب بچھڑے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے مل سکیں۔ وہ لوگ جو خوشحال ہیں، انھوں نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان سے وہ دبئی کا رخ کرتے ہیں، کچھ کے رشتہ دار وہاں ہیں اور کچھ نے عارضی طور پر وہاں گھر بنالیے ہیں۔ اس کھیل کی کہانی جس میں دلہا پٹنہ کا ہے اور دلہن کی ددھیال لکھنو کی، لیکن بٹوارے کے بعد اس کا گھرانا کراچی میں رہتا ہے۔ دادی کو اس کے گھر والے زبردستی کراچی لے آئے ہیں اور وہ لکھنو کی گلیوں کو یاد کرتے کرتے اس جہان سے گزر جاتی ہیں۔
دونوں طرف سے خط لکھے جارہے ہیں، کچھ پہنچتے ہیں اور کچھ راستے میں ہی کھو جاتے ہیں۔ فراز وقار ایک ڈاکیا ہے، جو ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب وہ صبح شام گھروں میں خط پہنچاتا تھا اور خوشیاں بانٹتا تھا، لیکن ای میل کی آمد نے خطوں کے لکھنے اور ایک دوسرے کو بھیجے جانے کا زمانہ ختم کیا۔ جوہان ڈی سوزا ایک بنجارہ ہے جو غم انگیز گانے گاتا ہے۔ ہولی کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ ہی راحت فتح علی اور امجد صابری کی آوازیں امیر خسرو کا رنگ سناتی ہیں۔ آج رنگ ہے ری ماں رنگ ہے۔
درمیان میں نیرہ نور ’کبھی ہم خوبصورت تھے‘ اور فیض صاحب کی نظم کا ایک بند ’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے‘ ایسے من موہنے گیتوں اور غزلوں کے ٹکڑے دل کو لبھاتے ہیں۔ آمنہ خیشگی، احتشام شاہد، صنوبر صباح، ماہا جمیل، شہزاد کلیم، واہگہ کا کردار ادا کرنے والا ماجد محمد ہے، پروڈیوسر اور ہیڈ آف پروڈکشن حسن شیخ ہیں اور سب سے بڑھ کر دھروتی Dhruti شاہ ڈی ہیں، جو تھیٹر آرٹسٹ ہیں۔ دبئی میں رہتی ہیں۔ انگریزی، ہندی اور اردو میں کئی کھیل ڈائریکٹ کرچکی ہیں۔ دھروتی پاکستان ہندوستان کے آرٹسٹوں کو جوڑ کر ایسے کھیل پیش کرتی ہیں جو برصغیر کے کلچر، رسم و رواج اور ان کے تشخص کو تھیٹر کے ذریعے زندہ کرسکیں۔
پاکستان اور ہندوستان کے بیچ جو تناؤ اور تناتنی ہے، اسے کم اور ختم کرنے کے لیے دبئی میں رہنے والی نئی پیڑھی کے لوگوں نے جس سلیقے سے یہ کھیل پیش کیا، اس کے لیے انھیں بہت داد ملنی چاہیے۔ ایک طرف یہ لوگ انٹرنیٹ اور ای میل کے ذریعے خطوں کی تہذیب اور روایت کے ختم ہونے پر اداس ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح ہماری یہ شاندار روایت زندہ رہے اور دوسری طرف واضح الفاظ میں کچھ کہے بغیر اشارہ کرتے ہیں کہ دونوں طرف کے رہنے والے ایک ہی مٹی سے اٹھے ہیں، ان کے دکھ درد ایک ہیں، ان کے موسم اور تیوہار ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں۔ تو پھر کیوں نہ وہ مل جل کر رہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد باٹیں، اور اپنی بھلا دی جانے والی روایتوں کو پھر سے زندہ کریں۔
’’گونج پروڈکشن‘‘ نے یہ کھیل اس سے پہلے دلی میں پیش کیا تھا، کراچی میں بھی ان کا کھیل پسند کیا گیا۔ سندھ کے گورنر محمد زبیر نے اپنی تقریر میں بھی گزرے ہوئے ان دنوں کو یاد کیا جب ان کے والد علی گڑھ اور دہرہ دون میں پڑھتے تھے۔
اس کھیل میں خطوں کو بنیادی اہمیت ہے اور واہگہ ایک بنیادی کردار ہے جس کی شناخت خاردار تار ہیں۔ ان خاردار تاروں کے باوجود وہ دونوں طرف کے لوگوں کے غم سمجھتا ہے، ان پر آہ بھرتا ہے اور خود کلامی کرتا رہتا ہے۔ ’گونج‘ کے بینر تلے پیش کیے جانے والے کھیل میں ہماری زندگیوں سے رخصت ہوجانے والے خطوں کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ ان کی رخصت ایک بہت بڑا تہذیبی، ادبی اور انسانی سانحہ ہے۔ یہ کسی ایک زبان یا کسی ایک سماج کا نہیں دنیا کے تمام سماجوں سے ایک بھری پری شاندار روایت کی رخصت ہے۔
یہ 3600 قبل مسیح کی بات ہے جب سمیریوں نے ’لکھائی‘ ایجاد کی۔ 2500 سال قبل مسیح میں سمیریوں کے یہاں ادب کی پنیری لگی۔ 2000 سال قبل مسیح سے 1400 قبل مسیح کے دوران دنیا کا پہلا رزمیہ ’’گل گامش کی داستان‘‘ مٹی کی تختیوں پر تحریر ہوا۔ 1600 قبل مسیح میں یہ چین کی شانگ شاہی تھی جس میں ’تحریر‘ کو فروغ ہوا۔ قبل مسیح کنعانی حروف تہجی ایجاد ہوئے۔
1500 سے 1100 قبل مسیح کے دوران ہندوئوں کی مقدس کتاب رگ وید لکھی گئی۔ اس کے بعد چل سو چل کا معاملہ تھا۔ 1100 قبل مسیح اور اس کے بعد فونیقی، چینی اور یونانی خط تحریر ایجاد ہوتے چلے گئے۔ پہلا تحریری ریکارڈ 4 ہزار برس پرانا ہے جس میں اناج کی بوریوں اور جانوروں کی تعداد کا حساب رکھا گیا ہے۔ ہمیں تاریخ میں 500 برس قبل مسیح ایرانی ملکہ اتوسا ملتی ہے جو تعلیم یافتہ تھی اور جس کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط تاریخ میں محفوظ ہے۔
ہمارے یہاں اردو نثر کی تاریخ میں غالب کے خطوط کی جو اہمیت ہے اس سے ادب کا کون سا طالب علم ہے جو واقف نہیں، انھوں نے صرف اردو میں ہی نہیں، فارسی میں بھی خطوط لکھے جن میں سے بہت سے ہمارے پرتو روہیلہ نے اردو میں ترجمہ کیے۔ ان خطوط سے انیسویں صدی کی معاشرت اور غالب ایسے نابغہ روزگار کی مصرونیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک خط میں مرزا احمد بیگ پتاں کو لکھتے ہیں کہ کسی ملازم کو اخبار ’جام جہاں نما‘ دے کر کہا کہ ساتھ میرے پاس بھجوا دیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے شاعروں اور ادیبوں میں اخبار بینی کا شوق کس طرح بیدار ہوچکا تھا، اردو اور انگریزی میں لکھے جانے والے خطوں کا ایک انبار ہے۔ کون ہے جو مکتوبات صدی کو فراموش کردے اور کون پنڈت نہرو کے ان خطوط کو بھلا سکتا ہے جو انھوں نے اپنی بیٹی اندرا پریہ درشنی کے نام لکھے اور نوجوانوں کے لیے تاریخ عالم کا سبق بن گئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، شبلی نعمانی، حالی، سرسید اور اقبال کے خطوط۔ ان لوگوں نے یہ خط نہ لکھے ہوتے تو ہماری تاریخ کس قدر ادھوری ہوتی۔
اس وقت مجھے نقوش کا ’خطوط نمبر‘ یاد آگیا جسے کھول کر بیٹھیے تو ادیبوں اور شاعروں کی زندگی کے کیسے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ اچانک جدید سائنس بیچ میں کود پڑی۔ انٹرنیٹ اور ای میل نے زندگی کا لطف ہی ختم کردیا، کہاں خطوں کا جانا اور پھر ان کے انتظار میں دن کاٹنا اور کہاں یہ عالم کہ دو سطر میں کہانی تمام ہوئی۔ نہ حکایتیں، نہ شکایتیں۔ نہ فراق کے معاملات، نہ ہجر کے طول طویل قصے۔
سائنس سے اور جدید ایجادات سے کون کمبخت انکاری ہے لیکن خطوط کا ہماری زندگی سے یوں نکل جانا کہ جیسے وہ کبھی ہوتے ہی نہ تھے۔ ایک ادبی اور تہذیبی سانحے سے کم نہیں۔ ’گونج‘ سے متعلق تمام لوگ نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن انھیں احساس ہے کہ ہماری زندگی خطوط کے بغیر کیسی بے رس ہوگئی ہے۔ یہ نئی نسل خوش رہے کہ وہ اس بارے میں کچھ سوچتی ہے۔
About Zahida Hina
Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.
Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.
Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India’s largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.