میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آج کے دور میں بھی کئی لوگ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شدت اور دلی عقیدت جتنی صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اندر نظر آتی تھی وہ شاید ہی کہیں نظر آتی ہو شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی صحبت میں وقت گزارا ہے اور ان کی ہر بات کو عملی طور پر کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اسی وجہ سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے عقیدت و محبت کی مثال تاریخ اسلام میں کہیں نہیں ملتی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان وعظمت کی کئی نشانیاں اور کئی مثالیں ہمیں کتابوں میں ملتی ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ایک فرمان ہی ان کی شان و عظمت کے لئے کافی ہے اپنے امتیوں سے فرمایا کہ” صحابہ کرام وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کے مصاحبت اور دین کے قیام کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ ان کی جاہ و مقام کو پہچانو اور ان کے طریقے پر چلو اس لیے کہ وہ ہدایت اور راہ راست پر تھے ".
[رواه ابن عبد البرّ)
آج کی تحریر میں ہم دو واقعات پڑھیں گے ایک صحابی کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے بارے میں اور ایک ختم نبوت کے لئے پہرہ دینے والے بھٹکے ہوئے انسان کی زندگی میں آنے والی تبدیلی کے بارے میں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی تھے، ایک تو حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے تو وہ تو حدیبیہ میں آگئے اور یہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیچارے جو اپنے آقا کی جیل توڑ کر مکے سے بھاگ کر مدینہ پاک آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم مجھے قبول کر لیں میں بھاگ آیا ہوں وہ بڑا ظلم کرتے ہیں، مارتے ہیں، تکلیف دیتے ہیں جب حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو ادھر سے ان کے مالک نے ایک دو بندے بھی بھیج دیئے رقعہ دے کر کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آپ کا تو وعدہ تھا کہ بندہ رکھیں گے نہیں مطلب ابھی حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہچے ہی تھے کہ پیچھے دو آدمی رقعہ لیکر بھی آ گئے اب ذرا منظر کو سمجھیں کیا کیفیت ہے بندہ رو رہا ہے تڑپ رہا ہے کہ رہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم میں مالک سے بچتا ہوا آیا ہوں جیل توڑ کر آیا ہوں مجھے قبول کر لیں ادھر رقعہ آ گیا کہ آپ کا وعدہ تھا رکھیں گے نہیں اب یہ کتنا مشکل مسئلہ ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
لیکن رسول پاک علیہ السلام نے فرمایا ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے یار تجھے واپس جانا پڑے گا حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ سے حضور نے فرمایا واپس جانا ہے اب آپ اندازا لگائیں کہ ان کے دل پر کیا گزررہی ہوگی لیکن عرض کیا کہ ٹھیک ہے کوئی شکوہ نہیں کوئی گلہ نہیں یہ بھی میرے معبود کا حکم ہی ہے اور کیا بات ہے میرے نبی وعدوں کے پکے ہیں کیا بات ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے جو کہا کر کے دکھایا کہتے ہیں میں اٹھا اور چلدیا جب میں واپس جا رہا تھا تو میرے مالک کے دو بندے ساتھ تھے جب مدینہ کی حد گزر گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے تو کہا تھا کہ مدینہ میں پناہ نہیں دینی تو ہم مدینہ کی حدود سے باہر ہیں میرے ساتھ میرے مالک کے دو لوگ تھے ان کے پاس تلوار تھی میں نے اس میں سے ایک سے کہا یار تلوار بڑی سوہنی ہے دکھانا اس نے دکھائی تو میں نے موقع دیکھ کر ایک کی گردن اڑادی جب یہ منظر دوسرے نے دیکھا تو حیران ہوگیا کہ یہ کیا ہوا گویا منظر یہ دیکھ کر وہ دوسرا بھاگ گیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
اور وہ اب بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ جی اس نے تو ہمارا ایک آدمی ہی ماردیا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو پتہ چلا کہ یہ واقعہ مدینہ کی حدود سے باہر ہوا ہے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم فرمانے لگے میں نے تو وعدہ پورا کیا تھا نا تم سے نہیں سنبھالا گیا تو معاملہ تمہارا ہے اب حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ بھی واپس آئے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اب میرے لئے کیا حکم ہے فرمایا میرا حکم وہی ہے مدینہ میں ہم نہیں رکھ نہیں سکتے صحابہ تھے نا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی باتوں سے خوشبو لیتے تھے حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں مدینہ کی سرحد سے نکل گیا اس جگہ چلا گیا جو نہ مکہ کی ریاست میں تھا نہ مدینہ کی وہاں رہنے لگا حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتا چلا کہ ایک نیا ٹھکانہ بن گیا وہ بھی جیل توڑ کر آ گئے اور اس طرح ہوتے ہوتے ستر بندے آ گئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
لیکن اتنے بندوں کے کھانے پینے کا اہتمام کیسے ہوگا وہاں سے کافروں کے قافلے گزرتے تھے یہ بھی مسلمانوں کو تنگ کرتے تھے مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مکہ سے قافلے گزرتے تھے تو ہم نے بھی ان کو پکڑا کافر کا مال مالِ غنیمت سمجھا اور اس طرح اسباب بن گیا اور وہ جب قافلے لیکر آتے تھے تو ڈرے ہوتے تھے اور ان صحابہ کو تو ستایا گیا تھا کہتے ہیں ہم کو ستایا بڑا تھا ہم تو انقلابی بن گئے تھے ستر بندے ہو گئے پھر تین سو ہو گئے ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں دنیا مدینہ جاتی تھی لیکن ہم تڑپتے تھے ہم تڑپتے تھے کہ یار کوئی موقع ملے تو ہم بھی جائیں روز رات کو روتے تڑپتے تین سو انقلابیوں کا جتھہ صبر سے بیٹھا ہے مدینہ کی سرحدپر ہیں مگر اندر آنے کی اجازت نہیں پر غلامی میں روز اضافہ ہو رہا ہے صبر دیکھو غلامی میں روز اضافہ ہوتا ہےاچھا کافر پہلے بڑی ڈینگیں مارتے تھے کہ دیکھو ہم نے کیسی شرط منوائی ہے کیسی شرط منوائی ہے کہ ان کا بند آئے گا تو ہم واپس نہیں کریں گے ہمارا جائے گا تو انہیں کرنا پڑے گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس معاہدے سے تھک گئے اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ خود آکر کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم مہربانی کریں یہ شرط تو ختم کریں اور ان تین سو کو تو مدینہ بلائیں مہربانی فرمائیں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بڑے خوش ہوئے اور اسی وقت غلاموں کے نام پیغام لکھا غلاموں کے نام پیغام لکھا یار سب جلدی جلدی مدینہ آجاؤ مدینہ آنے کے لئے حضرت ابو بصیر کے نام چٹھی آگئی آجا یار مدینہ حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں حضرت بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار تھے جب انہیں چٹھی ملی تو میں سرہانے کھڑا تھا حضرت ابو بصیر نے خط پڑھا مسکرائے اور پھر رونا شروع کردیا اشارے سے کہنے لگے کہ دیکھ میرے نبی کا خط آیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی چٹھی میرے نام آئی ہے پڑھنا میں نے بھی پڑھی پہلے روئے اور پھر کلمہ پڑھا پھر میرا ہاتھ تھاما اور دیکھتے ہی دیکھتے روح ہی پرواز کر گئی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
اب وہ ظاہری جسم کے ساتھ تو مدینہ نہ پہنچے لیکن جب قبر انور میں پہنچے تو مدینہ والے کی زیارت نصیب ہو گئی قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گئی حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے جنازہ پڑا اور اسی مقام پر جہاں انہوں نے انتظار کیا تھا وہیں تدفین کردی اور پھر وہاں ان کا مزار بنا مزار کے ساتھ ایک مسجد بنی جس مسجد کا نام مسجد ابو بصیر رکھا گیا ایک سچے عاشق رسول صحابی نےمدینے جانے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے انتظار میں جان تو دے دی پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور کبھی شکوہ بھی نہیں کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
یہ تھی ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سچی عقیدت اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ایک اعلی مثال آئیے اب ہم ایک ایسے انسان کے بارے میں پڑھتے ہیں جو ویسے تو دنیا کے بگڑے ہوئے ماحول کی ایک نشانی تھا لیکن اس کی زندگی میں یکایک تبدیلی رونما ہوگئی وہ کیسے یہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں دراصل
حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے فرماتے ہیں کہ مجھے وہاڑی کے ایک گاؤں سے بڑا محبت بڑا خط لکھا گیا کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بیان نہیں ہوا ہمارا بہت دل کرتا ہے آپ ہمیں وقت عنایت فرما دیں ہم تیاری کر لیں گے میں نے محبت بڑے جذبات دیکھ کر جواب میں خط لکھ دیا کہ میں فلاں تاریخ کو حاضر ہو جاؤں گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد دیئے گئے وقت پر میں فقیر ٹرین پر سے اتر کر ٹانگے پر بیٹھ کر گاؤں پہنچ گیا تو کیا دیکھا کہ یہاں تو نہ کوئی جلسہ ہونا دکھائی دے رہا تھا اور نہ ہی لوگ بس مجھے بلوانے والے چند لوگ جمع تھے انہوں نے میرا استقبال کیا اور مجھے قریب ہی ایک حجرے میں لے جاکر بٹھادیا اس کے بعد انہوں نے ایک لفافے میں کچھ نذرانے کی رقم رکھ کر مجھے دیتے ہوئے کہا کہ حضرت ہم یہ جلسہ نہیں کرواسکتے لہذہ بھلے آپ جاسکتے ہیں میں حیران و پریشاں کہ آخر ماجرہ کیا ہے ؟ تو مجھے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں نوے فیصد قادیانی ہیں وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ نہ تو تمہاری عزتیں نہ مال نہ گھربار محفوظ رہیں گے اگر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تم لوگوں نے کوئی بیان کروایا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب ہم کمزور ہیں غریب ہیں تعداد میں بھی کم ہیں اس لئے ہم نہیں کر سکتے میں نے لفافہ واپس کر دیا اور کہا بات تمہاری ہوتی یا میری ہوتی تو واپس چلا جاتا بات مدینے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی آگئی ہے اب بیان ہوگا ضرور ہوگا وہ لوگ میری بات سن کر گھبرا گئے کہ حضرت آپ تو چلے جائیں گے مسئلہ تو ہمارے لئے ہوگا تو میں نے کچھ دیر سوچتے ہوئے کہا کہ اس گاؤں کے آس پاس کوئی باثر شخص یا کوئی بدمعاش یعنی گنڈا رہتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ گاؤں سے کچھ دور نورا ڈاکو رہتا ہے پورا علاقہ اس سے ڈرتا ہے تو میں نے کہا چلو مجھے لے چلو نورے کے پاس لہذہ وہ لوگ مجھے اس ڈاکو نورا کے پاس لے گئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انہوں نے کہا کہ جب ہم نورے کے ڈیرے پر پہنچے تو نورا دیکھ کر حیران ہوگیا کہ آج میرے پاس مولوی لوگ کیسے آگئے اس نے کہا کہ بھئی آپ لوگ میرے پاس کیا لینے آئے ہو تو میں نے کہا کہ نورا مانا کہ تم ایک بدمعاش ڈاکو ہو اور لوگ تم سے ڈرتے بھی ہیں لیکن تم ہو تو مسلمان اور جب مسلمان کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی عزت و ناموس کی بات اجائے تو پھر کیا ہوتا ہے ؟ تو وہ کچھ پریشان ہوا اور کہنے لگا کہ بات کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی آگئی ہے کیا تم ہماری کچھ مدد کرو گے میری بات سن کر نورا بجلی کی طرح کھڑا ہوا اور بولا میں ڈاکو ضرور آں پر بے غیرت نہیں آں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
وہ کہنے لگے کہ جب میں نے ساری بات نورا کو بتائی تو اس نے کہا کہ مولانا صاحب آپ بیان کریں اور باقی معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں یہ کہکر وہ ہمارے ساتھ مسجد کے لئیے چلدیا اور مسجد پہنچ کر مجھے اندر بھیجا لوگوں کو جمع کروایا اور یوں میں نے بیان شروع کردیا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین گھنٹے کا بیان کیا لوگوں کو ایک کثیر تعداد وہاں بیان سننے کے لئیے جمع ہوگئی لیکن نورا ڈاکو مسجد کے باہر ڈٹ کر کھڑا رہا اور کہا کہ کسی نے مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو اس کی خیریت نہیں ہوگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
اور یوں وہاں لوگوں کی دلی خواہش کے مطابق ایک کامیاب جلسہ ہوگیا مولانا امین اوکاڑوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے نورا ڈاکو کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے واپس اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ابھی اس واقعہ کو چھ ماہ گزرے تھے کہ ایک دن میرے دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص جس کے سر پر عمامہ کا تاج سجا ہوا تھا اور چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی سجی ہوئی تھی جبکہ چہرے پر ایک عجیب سی روحانیت جھلک رہی تھی فرماتے ہیں میں انہیں پہچان نہ سکا اس لئیے پوچھا کہ آپ کون ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
فرماتے ہیں کہ اس شخص کی آنکھوں سے آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے وہ کہنے لگا حضرت میں نورا ڈاکو ہوں وہ یہ کہکر پھر زاروقطار رونے لگا تو میں اسے دیکھ کر حیران ہوگیا کہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے ہوگئی میں نے پوچھا یہ سب کیسے ہوا ؟ تو کہنے لگا کہ مولانا صاحب اس دن جب جلسہ ختم ہوا آپ واپس روانہ ہوگئے تو میں بھی گھر کی طرف چلدیا تین گھنٹے مسلسل مسجد کے باہر ڈیوٹی دینے کی وجہ سے تھک چکا تھا گویا گھر پہنچ کر لیٹ گیا اور آنکھ لگ گئی بس ظاہری آنکھ کیا لگی کہ دل کی آنکھ کھل گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم تشریف لے آئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی اور بولتا جارہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے زیارت سے مشرف کیا اور فرمایا کہ آج تم نے میرے ناموس کی حفاظت کے لئےجو پہرہ دیا اس کی وجہ سے میں اور میرا رب دونوں تم سے خوش ہوئے ہیں اور اس کے سبب تمہارے پچھلے تمام گناہوں کو رب تعالیٰ نے معاف کردیا ہے بس مولانا صاحب جب صبح آنکھ کھلی تو میری زندگی ہی بدل چکی تھی اور اب یہ حالت ہے کہ آنکھیں خشک ہی نہیں ہوتیں اور آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے نورا کہنے لگا کہ میں آپ علیہ الرحمہ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں کہ یہ سب کچھ آپ علیہ الرحمہ کی وجہ سے ہوا اگر اس دن آپ علیہ الرحمہ میرے پاس نہ آتے تو شاید میری زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی کبھی نہ آتی اور مجھ پر میرے رب تعالی کا اتنا بڑا کرم کبھی نہ ہوتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والو
رب تعالی تو ہر وقت اور ہر لمحہ اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے اور جب بھی انسان کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اسی وقت فرشتوں کو حکم کرتا ہے اور فرشتے اس انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردا نعمت سے نواز دیتے ہیں ہمیں کوشش یہ کرنی چاہئیے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور اس کی رضا کی خاطر نیکیاں کرنے کا عمل جاری و ساری رکھیں تاکہ ہمیں بھی بخشش کا پروانہ مل جائے اور رب العزت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے صدقے ہمیں بھی اپنا قرب عطا کردے اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سچی عقیدت اور محبت عطا فرمائے امین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
محمد یوسف برکاتی