آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاویس خالد

پاکستان کا مطلب کیا

اویس خالد کا ایک اردو کالم

پاکستان کا مطلب کیا

پاکستان ایک کراماتی اور کرشماتی وجود کا حامل ہے۔اس کے معرض وجود میں آنے کی داستان بڑی ایمان افروز ہے۔اسی طرح قیام کے بعد اس کی بقا کے معاملات بھی بڑے دلچسپ اوررازدارانہ ہیں۔نظریاتی ریاستیں حادثاتی ریاستوں کی نسبت ذیادہ مستحکم اور مستقل ہوتی ہیں۔کیونکہ نظریاتی ریاستوں کے پیچھے باہمی جذبہ اور اخلاص کارفرما ہوتا ہے۔اس بات کو سمجھنے کے لیے دنیا میں اس موازنے کی ڈھیروں مثالیں ہیں۔ارض وطن پاکستان بھی ایک مکمل نظریاتی ریاست کا درجہ رکھتا ہے اور وہ نظریہ بلاشبہ دو قومی نظریہ ہے۔دو قومی نظریے کی بڑی تعریفات ہیں۔ہر کسی نے اپنے اپنے تئیں اس کی بڑی خوب صورت وضاحت کی۔جسے سن کر ایمان تازہ ہوتا ہے لیکن ایک تعریف یہ بھی ہے کہ بھارت کے کسی ایک فوجی کی موت کے بعد اس کی ماں کا انٹرویو کیا جاتا ہے تو وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کریہ کہتے ہوئے سنائی دیتی ہے کہ آئندہ اپنے خاندان میں سے کسی کو فوج میں نہیں جانے دوں گی۔اس کے برعکس پاکستان کی ایک عظیم ماں جس کا خاوند اور تین بیٹے وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہوئے تھے
اور وہ ایک پر وقار تقریب میں پوری دنیا کے سامنے برملا اس خواہش کا اظہار کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ کاش میرے دس بیٹے ہوتے اور میں ایک ایک کر کے سارے اپنے وطن پر وار دیتی۔اور خود انھیں وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوتا ہوا دیکھتی۔سبز پرچم میں لپٹ کر میرے بیٹے اس دھرتی ماں کی محبت کا قرض اتارتے۔ایسے جذبے کہاں مل سکتے ہیں۔ایسے جذبے وہیں مل سکتے ہیں جہاں روحانی وابستگی ہوتی ہے۔یہ جذبہ دراصل ایک اساسی نعرہ ہے جو قیام پاکستان کے وقت بھی لگایا گیا تھا اور آج بھی ہے اور رہتی دنیا تک اپنے پورے معنی و مفہوم کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا اور وہ ایک ہی نعرہ ہے۔پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔لا الہ الا اللہ۔پاکستان بھی دنیا کی طرح ترقی کی دوڑ میں شامل ہے۔جدت کی منزلیں طے کر رہا ہے۔

جدیدیت کی راہوں کا مسافر ہے مگر دوسری دنیا کی طرح اپنی اساس نہیں بھولا۔اساس آج بھی کلمہ طیبہ ہے۔اسی کلمہ کی برکت سے اس کا وجود قائم ہے۔اس کی بنیادوں میں جتنے شہیدوں کا لہو شامل ہے اس کے پیچھے بھی جو جذبہ سر فروشی ہے اس میں کلمہ طیبہ کی حلاوت و حرارت ہے۔یہی کلمہ ہے جو ہم سب کو مجموعی طور پر اس وطن عزیز کی حفاظت پر ہمیشہ غیر مشروط طور پر مامور رکھتا ہے۔ہم سب کو بحیثیت قوم متحد و متفق رکھتا ہے۔کل بھی اسی پرچم کے سائے میں نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اکھٹے ہوئے تھے اور آج بھی یہی کلمہ ہزار اختلافات کے باوجود پوری قوم کو متحد رکھتا ہے۔ہر معرکے میں ملک دشمن عناصرکے سینوں پر مونگ دلنے والے اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے والے ہمارے فوجی جوان جب نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں تو بڑے بڑے دشمنوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ان کے قدم اکھڑ جاتے ہیں۔یہ سب اسی کلمے کی ہی برکتوں کے نظارے ہیں۔اگرچہ ہمارا ملک بہت سے خطرات سے لڑتا رہا ہے۔بہت سے آزمائشوں میں گھرا ہوا ہے۔اسے ہر دور میں بہت سے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔پاکستان پر کئی مرتبہ جنگیں مسلط کی گئیں جس میں پروردگار کے فضل سے سرخرو ہوئے۔ہمارے بچے بچپن میں ہی اپنے نصاب میں یہ پڑھ لیتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب لا الہ کے سوا کچھ نہیں۔اور یہ اساسی نظریہ ہمارے بچپن کا ساتھی،لڑکپن کا دوست،جوانی کی ذمہ داری اور بڑھاپے کی دوا ہے۔دراصل پاکستان کی بقا کا راز ہی اس میں مضمر ہے۔ہر وہ ہستی معتبر ہے جس نے اس نعرے کی پاسداری کی ہے۔جس نے اس نظریے کا احترام کیا ہے۔قوم نے ان کے بچوں کی بھی غلامی کی ہے جنہوں نے اس نظریے کو تقویت دی ہے۔اور ہر اس شخص سے نفرت کی ہے جس نے کسی نہ کسی صورت اس نظریے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔پوری دنیا کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد بڑا عظیم ہے۔اس مقصد کے پیچھے کئی نسلوں کی قربانیاں موجود ہیں۔پوری قوم کسی بھی قیمت پر اس نظریے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔دشمن عناصراپنے ہر ہتھکنڈے آزما چکے ہیں لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی اور ان شاء اللہ نہ کبھی ہو گی۔۴۱ اگست تجدید عہد وفا کا دن ہے۔اس قوم کی عید کا دن ہے۔اب وقت ہے کہ ہر فرد اس پاک مملکت کو لے کر اپنی اپنی انفرادی ذمہ داریاں ادا کرے اور اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔بزرگوں نے لازوال قربانیاں دے کر ملک بنا دیا ہے اور اب اس کی حفاظت کا ذمہ ہمارے سر ہے۔سلام ہے پاک فوج کے ہر جوان کو جو اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے نہیں تھکتے۔اسی طرح جن کے ذمے ہے وہ نظریاتی حدوں کی بھی حفاظت کریں۔یہ ملک عظیم ہے یہ قوم عظیم ہے۔اور ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک پاکستان دنیا کی طاقت ور ترین ریاست بن کر ابھرے گاان شاء اللہ۔

اویس خالد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button