شیرو
چیڑ اور دیو دار کے ناہموار تختوں کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا مکان تھا جسے چوبی جھونپڑا کہنا بجا ہے۔ دو منزلیں تھیں۔ نیچے بھٹیار خانہ تھا جہاں کھانا پکایا اور کھایا جاتا تھا۔ اوربالائی منزل مسافروں کی رہائش کے لیے مخصوص تھی۔ یہ منزل دو کمروں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے ایک کافی کشادہ تھا۔ جس کا دروازہ سڑک کی دوسری طرف کھلتا تھا۔ دوسرا کمرہ جو طول و عرض میں اس سے نصف تھا بھٹیار خانے کے عین اوپر واقع تھا۔ یہ میں نے کچھ عرصے کے لیے کرایہ پر لے رکھا تھا۔ چونکہ ساتھ والے حلوائی کے مکان کی ساخت بھی بالکل اسی مکان جیسی تھی اور ان دونوں جگہوں کے لیے ایک ہی سیڑھی بنائی گئی تھی۔ اس لیے اکثر اوقات حلوائی کی کتیا اپنے گھر جانے کے بجائے میرے کمرے میں چلی آتی تھی۔ اس عمارت کے تختوں کو آپس میں بہت ہی بھونڈے طریقے سے جوڑا گیا تھا۔ پیچ بہت کم استعمال کیے گئے تھے۔ شاید اس لیے کہ ان کو لکڑی میں داخل کرنے میں وقت صرف ہوتا ہے، کیلیں کچھ اس بے ربطی سے ٹھونکی گئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا اس مکان کو بنانے والا بالکل اناڑی تھا۔ کیلوں کے درمیان فاصلہ کی یکسانی کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا تھا۔ جہاں ہاتھ ٹھہر گیا وہیں پر کیل ایک ہی ضرب میں چت کردی گئی تھی۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا تھا کہ لکڑی پھٹ رہی ہے یا کیل ہی بالکل ٹیڑھی ہو گئی ہے۔ چھت ٹین سے پاٹی ہوئی تھی، جس کی قینچی میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ کمرے کے باقی تختوں کی طرح چھت کی کڑیاں بھی رنگ اور روغن سے بے نیاز تھیں البتہ ان پر کہیں کہیں چڑیوں کی سفید بیٹیں سفیدی کے چھینٹوں کے مانند نظر آتی تھیں۔ میرے کمرے میں تین کھڑکیاں تھیں۔ درمیانی کھڑکی کی طول و عرض میں دروازے کے برابر تھی۔ باقی دو کھڑکیاں چھوٹی تھیں ان کے کواڑوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ مالک مکان کا کبھی ارادہ تھا کہ ان میں شیشے جڑائے، پر اب ان کے بجائے ٹین کے ٹکڑے اور لکڑی کے موٹے موٹے ناہموار ٹکڑے جڑے تھے۔ کہیں کہیں لندن ٹائمز اور ٹریبیون اخبار کے ٹکڑے بھی لگے ہُوئے تھے۔ جن کا رنگ دھوئیں اور بارش کی وجہ سے خستہ بسکٹوں کی طرح بھوسلا ہو گیا تھا۔ یہ کھڑکیاں جنکی کی کنڈیاں ٹُوٹی ہوئیں تھیں۔ بازار کی طرف کھلتی تھیں اور ہمیشہ کھلی رہتی تھیں۔ اس لیے کہ ان کو بند کرنے کے لیے کافی وقت اور محنت کی ضرورت تھی۔ کھڑکیوں میں سے دُور نظر ڈالنے پر پہاڑیوں کے بیچوں بیچ ٹیڑھی بِنگی مانگ کی طرح
’’کشتواڑ‘‘
اور‘‘
بھدروا‘‘
جانے والی سڑک بل کھاتی ہُوئی چلی گئی اور آخر میں آسمان کی نیلاہٹ میں گھل مل گئی تھی۔ کمرے کا فرش خالص مٹی کا تھا جو کپڑوں کو چمٹ جاتی تھی اور دھوبی کی کوششوں کے باوجود اپنا گیروارنگ نہ چھوڑتی تھی۔ فرش پر پان کی پیک کے داغ جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں کونوں میں چچوڑی ہوئی ہڈیاں بھی پڑی رہتی تھیں جو ہر روز جھاڑوسے کسی نہ کسی طرح بچاؤ حاصل کرلیتی تھیں۔ اس کمرے کے ایک کونے میں میری چارپائی بچھی تھی جو بیک وقت میز، کرسی اور بستر کا کام دیتی تھی۔ اس کے ساتھ والی دیوار پر چند کیلیں ٹنگی ہوئی تھیں ان پر میں نے اپنے کپڑے وغیرہ لٹکا دیئے تھے۔ دن میں پانچ چھ مرتبہ میں ان کو لٹکاتا رہتا تھا اس لیے کہ ہوا کی تیزی سے یہ اکثر گرتے رہتے تھے۔ کشمیر جانے یا وہاں سے آنے والے کئی مسافر اس کمرے میں ٹھہرے ہونگے۔ بعض نے آتے جاتے وقت تختوں پر چاک کی ڈلی یا پنسل سے کچھ نشانی کے طور پر لکھ دیا تھا۔ سامنے کھڑکی کے ساتھ والے تختے پر کسی صاحب نے یادداشت کے طور پر پنسل سے یہ عبارت لکھی ہوئی تھی4/5/25ء سے دودھ شروع کیا اور ایک روپیہ پیشگی دیا گیا۔ اس طرح ایک اور تختے پر یہ مندرج تھا:۔ دھوبی کو کل پندرہ کپڑے دیئے گئے تھے جن میں سے وہ دو کم لایا۔ میرے سرہانے کے قریب ایک تختے پر یہ شعر لکھا تھا۔ در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں اس کے نیچے
’’علیم پنٹر‘‘
لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ نویسندہ کا نام ہو گا۔ یہی شعر کمرے کے ایک اور تختے پر لکھا تھا۔ مگر زرد چاک سے اس کے اوپر تاریخ بھی لکھ دی گئی تھی۔ ایک اور تختے پر یہ شعر مرقوم تھا میرے گھر آئے عنایت آپ نے مجھ پریہ کی میرے سر آنکھوں پر آؤ، تھی یہ کب قسمت میری اس سے دُور ایک کونے میں یہ مصرعہ لکھا تھا۔ ایک ہی شب گورہے لیکن گلوں میں ہم رہے اس مصرعے کے پاس ہی اسی خط میں پنجابی کے یہ شعر مرقوم تھے تیرے باہجہ نہ آسی قرار دل نوں، جذبہ پریم والا بے پناہ رہے گا لکھ اکھیاں تو ہوسیں دُور بانو اے پر دلاں نوں دلاندا راہ رہے گا تیرے میرے پیار دا رب جانے، مگونالے دا نیر گواہ رہے گا ترجمہ: تیرے بغیر میرے دل کو کبھی قرار نہیں آئے گا۔ جذبہ ءِ محبت بے پناہ رہے گا تو لاکھ میری آنکھوں سے دور ہو لیکن دل کو دل کی راہ رہے گی۔ تیرے اور میرے پریم کو صرف خدا جانتا ہے۔ لیکن
’’مگونالہ‘‘
کا پانی بھی اسکا گواہ رہے گا۔ میں نے اس اشعار کو غور سے پڑھا۔ ایک بار نہیں کئی بار پڑھا، نہ معلوم ان میں کیا جذبیت تھی کہ پڑھتے پڑھتے میں نے
’’ہیر‘‘
کی دلنواز دھن میں انھیں گانا شروع کردیا۔ لفظوں کا روکھا پن یوں بالکل دُورہو گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ لفظ پگھل کر اُس دُھن میں حل ہو گئے ہیں۔ یہ شعر کسی خاص واقعہ کے تاثرات تھے۔ مگونالہ ہوٹل سے ایک میل کے فاصلہ پر شہتوتوں اور اخروٹ کے درختوں کے بیچوں بیچ بہتا تھا۔ میں یہاں کئی بار ہو آیا تھا۔ اس کے ٹھنڈے پانی میں غوطے لگا چکا تھا۔ اس کے ننھے ننھے پتھروں سے گھنٹوں کھیل چکا تھا لیکن یہ بانو کون تھی؟۔ یہ بانو جس کا نام کشمیر کے بگوگوشے کی یاد تازہ کرتا تھا۔ میں نے اس بانو کو اس پہاڑی گاؤں میں ہر جگہ تلاش کیا مگر ناکام رہا۔ اگر شاعر نے اس کی کوئی نشانی بتا دی ہوتی تو بہت ممکن ہے مگونالے ہی کے پاس اسکی اور میری مڈبھیڑ ہو جاتی۔ اس مگونالے کے پاس جس کا پانی میرے بدن میں جھرجھری پیدا کردیتا تھا۔ میں نے ہر جگہ بانو کو ڈھونڈا مگر وہ نہ ملی۔ اس موہوم جستجو میں اکثر اوقات مجھے اپنی بیوقوفی پر بہت ہنسی آئی، کیونکہ بہت ممکن تھا کہ وہ اشعار سرے ہی سے مہمل ہوں اور کسی نوجوان شاعر نے اپنا من پرچانے کے لیے گھڑ دیئے ہوں مگر خدا معلوم کیوں مجھے اس بات کا دلی یقین تھا کہ بانو۔ وہ بانو جو آنکھوں سے دور ہونے پر بھی اس شاعر کے دل میں موجود ہے ضرور اس پہاڑی گاؤں میں سانس لے رہی ہے۔ سچ پوچھے تو میرا یقین اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ بعض اوقات مجھے فضا میں اس کا تنفس گھلا ہُوا محسوس ہوتا تھا۔ مگونالے کے پتھروں پر بیٹھ کر میں نے اس کا انتظار کیا کہ شاید وہ ادھر آنکلے اورمیں اسے پہچان جاؤں لیکن وہ نہ آئی۔ کئی لڑکیاں خوبصورت اور بدصورت میری نظروں سے گزریں مگر مجھے بانو دکھائی نہ دی۔ مگونالے کے ساتھ ساتھ اُگے ہوئے ناشپاتی کے درختوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں، اخروٹ کے گھنے درختوں میں پرندوں کی نغمہ ریزیاں اور گیلی زمین پر سبز اور ریشمیں گھاس، میرے دل و دماغ پر ایک خوش گو ارتکان پیدا کردیتی تھی اور میں بانو کے حسین تصور میں کھو جاتا تھا۔ ایک روز شام کو مگونالے کے ایک چوڑے چکلے پتھر پر لیٹا تھا خنک ہوا جنگلی بوٹیوں کی سوندھی سوندھی خوشبو میں بسی ہوئی چل رہی تھی۔ فضا کا ہر ذرّہ ایک عظیم الشان اور ناقابل بیان محبت میں ڈُوبا ہُوا معلوم ہوتا تھا۔ آسمان پر اُڑتی ہوئی ابابیلیں زمین پررہنے والوں کو گویا یہ پیغام دے رہی تھیں۔
’’اُٹھو، تم بھی ان بلندیوں میں پرواز کرو۔ ‘‘
میں نیچر ان کی سحر کاریوں کا لیٹے لیٹے تماشا کررہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے خشک ٹہنیوں کے ٹُوٹنے کی آواز آئی۔ میں نے لیٹے ہی لیٹے مڑ کر دیکھا۔ جھاڑیوں کے پیچھے کوئی بیٹھا خشک ٹہنیاں توڑ رہا تھا۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا، اور سلیپر پہن کر اس طرف روانہ ہو گیا کہ دیکھوں کون ہے۔ ایک لڑکی تھی جو خشک لکڑیوں کا ایک گٹھا بنا کر باندھ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ بھدی اور کن سری آواز میں
’’ماہیا‘‘
گارہی تھی۔ میرے جی میں آئی کہ آگے بڑھوں اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کے کہوں
’’کہ خدا کے لیے نہ گاؤ۔ لکڑیوں کا گٹھا اُٹھاؤ اور جاؤ مجھے اذّیت پہنچ رہی ہے۔ ‘‘
لیکن مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوئی، کیونکہ اس نے خود بخود گانا بندکردیا۔ گٹھا اُٹھانے کی خاطر جب وہ مڑی تو میں نے اسے دیکھا اور پہچان لیا یہ وہی لڑکی تھی جو بھٹیار خانے کے لیے ہر روز شام کو ایندھن لایا کرتی تھی۔ معمولی شکل و صورت تھی۔ ہاتھ پاؤں بے حد غلیظ تھے۔ سر کے بالوں میں بھی کافی میل جم رہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور دیکھ کر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ میں جب اٹھ کر دیکھنے آیا تھا تو دل میں آئی کہ چلو اس سے کچھ باتیں ہی کرلیں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا
’’یہ ایندھن جو تم نے اکٹھا کیا ہے! اسکا تمہیں جمّا کیا دیگا‘‘
جمّا اس بھٹیار خانے کے مالک کا نام تھا۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
’’ایک آنہ‘‘
’’صرف ایک آنہ۔ ‘‘
’’کبھی کبھی پانچ پیسے بھی دے دیتا ہے۔ ‘‘
’’تو سارا دن محنت کرکے تم ایک آنہ یا پانچ پیسے کماتی ہو۔ ‘‘
اس نے گٹھے کی خشک لکڑیوں کو درست کرتے ہوئے کہا۔ نہیں، دن میں ایسے دو گٹھے تیار ہو جاتے ہیں۔ ‘‘
’’تو دو آنے ہو گئے۔ ‘‘
’’کافی ہیں‘‘
’’تمہاری عُمر کیا ہے؟‘‘
اس نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے مجھے گھورکر دیکھا۔
’’تم وہی ہونا جو بھٹیار خانے کے اوپر رہتے ہو۔ ‘‘
میں نے جواب دیا،
’’ہاں وہی ہُوں۔ تم مجھے کئی بار وہاں دیکھ چکی ہو۔ ‘‘
’’یہ تم نے کیسے جانا۔ ‘‘
’’اس لیے کہ میں نے تمہیں کئی بار دیکھا ہے۔ ‘‘
’’دیکھا ہو گا۔ ‘‘
یہ کہہ وہ زمین پر بیٹھ کر گٹھا اُٹھانے لگی۔ میں آگے بڑھا۔
’’ٹھہرو میں اُٹھوا دیتا ہُوں۔ ‘‘
گٹھا اُٹھواتے ہُوئے لکڑی کا ایک نوکیلا ٹکڑا اس زور سے میری انگلی میں چبھا کہ میں نے دونوں ہاتھ ہٹا لیے۔ وہ سر پر رسی کو اٹکا کر گٹھے کو قریب قریب اُٹھا چکی تھی۔ میرے ہاتھ ہٹانے سے اس کا توازن قائم نہ رہا اور وہ لڑکھڑائی۔ میں نے فوراً اُسے تھام لیا۔ ایسا کرتے ہوئے میرا ہاتھ اس کی کمرسے لے کر اٹھے ہوئے بازو کی بغل تک گھسیٹتا چلا گیا وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ سر پر رسی کو اچھی طرح جمانے کے بعد اس نے میری طرف کچھ عجیب نظروں سے دیکھا اور چلی گئی۔ میری انگلی سے خون جاری تھا۔ میں نے جیب سے رومال نکال کر۔ اس پر باندھا اور مگو نالے کی طرف روانہ ہو گا۔ اس پتھر پر بیٹھ کر میں نے اپنی زخمی انگلی کو پانی سے دھو کر صاف کیا اور اس پر رومال باندھ کر سوچنے لگا۔
’’یہ بھی اچھی رہی بیٹھے بٹھائے اپنی انگلی لہولہان کرلی۔ خود ہی اٹھالیتی میں نے بھلا یہ تکلف کیوں کیا۔ ‘‘
یہاں سے میں اپنے ہوٹل، معاف کیجیے گا۔ بھٹیار خانے پہنچا اور کھانا وانا کھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دیر تک کھانا ہضم کرنے کی غرض سے کمرے میں مَیں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا۔ پھر کچھ دیر تک لالٹین کی اندھی روشنی میں ایک واہیات کتاب پڑھتا رہا۔ سچ پوچھئے تو اردگرد ہر شے واہیات تھی۔ لال مٹی جو کپڑے کے ساتھ ایک دفعہ لگتی تھی تو دھوبی کے پاس جا کر بھی الگ نہ ہوتی تھی اور وہ آپس میں نہایت ہی بھونڈے طریقے پر جوڑے ہوئے تختے اور ان پر لکھے ہوئے غلط اشعار اور چچوڑی ہوئی ہڈیاں جو ہر روز جھاڑو کی زد سے کسی نہ کسی طرح بچ کر میری چارپائی کے پاس نظر آتی تھیں۔ کتاب ایک طرف رکھ کر میں نے لالٹین کی طرف دیکھا۔ مجھے اس میں اور اس لکڑیاں چننے والی میں ایک گونہ مماثلت نظر آئی۔ کیونکہ لالٹین کی چمنی کی طرح اس لڑکی کا لباس بھی بے حد غلیظ تھا۔ مجھے اس کو بجھانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیونکہ میں نے سوچا، تھوڑی ہی دیر میں دھوئیں کی وجہ سے یہ اس قدر اندھی ہو جائے گی کہ خود بخود اندھیرا ہو جائے گا۔ کھڑکیاں خود بخود بند ہو گئی تھیں۔ میں نے ان کو بھی نہ کھولا اورچارپائی پر لیٹ گیا۔ رات کے نو یا دس بج چکے تھے۔ سونے ہی والا تھا کہ بازارمیں ایک کتا زور سے بھونکا جیسے اس کی پسلی میں یکا یکی درد اُٹھ کھڑا ہوا ہے میں نے دل ہی دل میں اس پر لعنتیں بھیجیں اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا مگر فوراً ہی نزدیک و دُور سے کئی کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں ایک عجیب و غریب سبتک قائم ہو گیا۔ اگرکوئی کتا ایک سُر چھیڑتا تو سبتک کے سارے سُر فضا میں گونجنے لگے۔ میری نیند حرام ہو گئی۔ دیر تک میں نے صبر کیا۔ لیکن مجھ سے نہ رہا گیا تو میں اُٹھا دوسرے کمرے میں گیا اور اس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ نیچے بازار میں اُترا اور جو پتھر میرے ہاتھ میں آیا مارنا شروع کردیا۔ ایک دو پتھر کتوں کے لگے کیونکہ نہایت ہی مکروہ آوازیں بلند ہوئیں میں نے اس کامیابی پر اور زیادہ پتھر پھینکنے شروع کیے۔ دفعتہً کسی انسان کے
’’اُف‘‘
کرنے کی آواز سنائی دی۔ میرا ہاتھ وہیں پتھر بن گیا۔ آواز کسی عورت کی تھی۔ سڑک کے دائیں ہاتھ ڈھلوان تھی، ادھر تیز قدمی سے گیا تو میں نے دیکھا کہ نیچے ایک لڑکی دوہری ہو کر کراہ رہی تھی۔ میرے قدموں کی چاپ سُن کر وہ کھڑی ہو گئی۔ بدلی کے پیچھے چھپے ہُوئے چاند کی دُھندلی روشنی میں مجھے اپنے سامنے وہی ایندھن چننے والی لڑکی نظر آئی۔ اس کے ماتھے سے خون نکل رہا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ میری غفلت کے باعث اُسے اتنی تکلیف ہوئی۔ چنانچہ میں نے اس ے کہا۔
’’مجھے معاف کردینا۔ لیکن تم یہاں کیا کررہی تھیں؟‘‘
اس نے جواب دیا۔
’’میں اوپر چڑھ رہی تھی۔ ‘‘
’’رات کو اس وقت تمہیں کیا کام تھا۔ ‘’‘ اس نے کرتے کی آستین سے ماتھے کا خون صاف کیا اور کہا
’’اپنے کتے شیرو کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ‘‘
بے اختیار مجھے ہنسی آگئی۔
’’اور میں تمام کتوں کا خون کردینے کا تہیہ کرکے گھر سے نکلا تھا۔ ‘‘
وہ بھی ہنس دی۔
’’کہاں ہے تمہارا شیرو؟‘‘
’’اللہ جانے کہاں گیا ہے۔ یوں ہی سارا دن مارا مارا پھرتا ہے۔ ‘‘
’’تو اب کیسے تلاش کرو گی۔ ‘‘
’’یہیں سڑک پر مل جائے گا کہیں۔ ‘‘
’’میں بھی تمہارے ساتھ اسے تلاش کروں؟‘‘
نیند میری آنکھوں سے بالکل اُڑ چکی تھی اس لیے میں نے کہا کہ چلوکچھ دیر شغل رہے گا۔ لیکن اس نے سر ہلا کر کہا۔
’’نہیں میں اسے آپ ہی ڈھونڈ لُوں گی۔ مجھے معلوم ہے وہ کہاں ہو گا۔ ‘‘
’’ابھی ابھی تو تم کہہ رہی تھیں کہ تمہیں کچھ معلوم ہی نہیں۔ ‘‘
’’میرا خیال ہے کہ تمہارے مکان کے پچھواڑے ہو گا۔ ‘‘
’’تو چلو مجھے بھی ادھرہی جانا ہے کیوں کہ میں پچھلا دروازہ کھول کر باہر نکلا تھا۔ ‘‘
ہم دونوں بھٹیار خانے کے پچھواڑے کی جانب سے روانہ ہوئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو کبھی کبھی بدن پر خوشگوار کپکپی طاری کردیتی تھی۔ چاند ابھی تک بادل کے پیچھے چھپا ہُوا تھا۔ روشنی تھی مگر بہت ہی دُھندلی جو رات کی خنکی میں بڑی پُر اسرار معلوم ہوتی تھی جی چاہتا تھا کہ آدمی کمبل اوڑھ کے لیٹ جائے اور اوٹ پٹانگ باتیں سوچے۔ سڑک طے کرکے ہم اوپڑ چڑھے اور بھٹیار خانے کے عقب میں پہنچ گئے۔ وہ میرے آگے تھی۔ ایک دم وہ ٹھٹکی اور منہ پھیر کر عجیب و غریب لہجے میں اس نے کہا۔
’’دُور دفان ہو نا مُراد!‘‘
ایک موٹا تازہ کتا نمودار ہُوا اور اپنے ساتھ حلوائی کی کتیا کوگھسیٹتا ہوا ہمارے پاس سے گُزر گیا۔ دروازہ کھلا تھا میں اسے اندر اپنے کمرے میں لے گیا۔ لالٹین کی چمنی ابھی مکمل طور پر سیاہ نہیں ہُوئی تھی، کیوں کہ ایک کونے سے جو اس کالک سے بچ گیا تھا تھوڑی تھوڑی روشنی باہر نکل رہی تھی۔ دو ڈھائی گھنٹے کے بعد ہم باہر نکلے۔ چاند اب بادل میں سے نکل آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ نیچے سڑک پر اس کا کتا شیرو بڑے سے پتھر کے پاس بیٹھا اپنا بدن صاف کررہا تھا۔ اس سے کچھ دُور حلوائی کی کتیا کھڑی تھی۔ جب وہ جانے لگی تو میں نے اس سے پوچھا
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا۔
’’بانو۔ ‘‘
’’بانو!‘‘
۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اب اس نے پوچھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے۔ ‘‘
میں نے جواب دیا۔
’’شیرو۔ ‘‘
سعادت حسن منٹو