- Advertisement -

بیوہ کا راز

ایک افسانہ از اختر شیرانی

بیوہ کا راز

ایک دن سہ پہر کے وقت میں ہاکمینز ہوٹل کے برآمدے میں بیٹھا ہوا لکھنؤ کی زندگی کی عظمت و شوکت اور عسرت و فلاکت کے دو گونہ منظر دیکھ رہا تھا۔ درمتھ کے گلاس پرسے گزرتی ہوئی میری نظریں امارت و ثروت اور غریبی و ذلّت کے اُن عجیب و غریب اور متضاد و مخالف نظاروں کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں، جو حضرت گنج کی وسیع ومصفّاسڑک پر میرے سامنے سے گزر رہے تھے۔ گزرتے چلے جا رہے تھے کہ اِتنے میں کسی نے میرا نام لے کر مجھے آواز دی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ تو نواب کیوان قدرسامنے کھڑا نظر آیا۔
ہمیں کالج چھوڑے کم و بیش دس سال گزر چکے تھے اور اُس وقت سے لے کراب تک ایک دوسرے سے ملنے جُلنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اِس لیے اُس کو دو بارہ دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ اور ہم نے نہایت گرم جوشی سے معانقہ کیا۔ جب ہم علیگڑھ میں تھے تو دونوں میں بہت دوستی رہ چکی تھی۔ وہ اِتنا خوب صورت، ایساجوانمرد اور اِس درجہ معزّز تھا کہ میں اُسے بے حد پسند کرتا تھا۔ طلبہ میں عام طور پراُس کی بابت چہ میگوئیاں ہوا کرتی تھیں کہ اگر وہ ہمیشہ سچ بولنے کا عادی نہ ہو تو بہترین ساتھی ہو۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ہم اُس کی صاف گوئی ہی کی وجہ سے اُس کی تعریف کرتے تھے۔
میں نے اُسے کافی سے زیادہ بدلا ہوا پایا۔ وہ کچھ بے چین، پریشان اور کسی معاملے کی بابت کچھ مشکوک سادکھائی دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اُس کی بیتابی زمانہ حال کے کفر و اِلحاد کے اثرات کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ کیوان قدر حکومت پسند طبقے کا کٹّر رکن تھا اور اپنے خاندان کی دیرینہ مذہبی روایات پرایساہی اعتقاد رکھتا تھا۔ جیسا کونسل آف سٹیٹ پر۔ بنا بریں میں نے خیال کیا کہ ہو نہ ہو اس کی پریشانیوں کی تہہ میں کسی عورت کی زلفیں لہرا رہی ہیں۔ یہ سوچ کر میں نے اُس سے اُس کی شادی کے متعلق دریافت کیا۔
"یار "میں اِن عورتوں کو کچھ اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔ "اُس نے جواب دیا۔
"کیوان! "میں نے کہا۔ "عورتیں محبت کیے جانے کے لیے ہیں۔ سمجھنے کے لیے نہیں! ”
"مگر میں اُس عورت سے محبت نہیں کر سکتا۔ جس پر مجھے اعتبار نہ ہو۔۔۔۔ "اُس نے جواب دیا۔
"کیوان! مجھے یقین ہے کہ تم اپنی زندگی میں کسی نہ کسی راز سے دو چار ہوئے ہو! "میں نے کہا "مجھے اُس کے متعلق کچھ بتاؤ! ”
"آؤ۔ گاڑی پر ہوا خوری کریں ‘‘۔ اُس نے کہا "یہاں تو بہت ہنگامہ ہے۔۔۔۔ نہیں، نہیں۔۔۔۔ زرد رنگ کی گاڑی۔۔۔۔۔ نہیں کوئی اور رنگ۔۔۔۔ وہ دیکھو۔۔۔۔ وہ گہرے سبز رنگ والی۔۔۔۔ بس بس وہ ٹھیک رہے گی۔ ”
چند لمحوں میں ہم قیصر باغ سے گزرتے ہوئے امین آباد پارک کی طرف جا رہے تھے۔ "کہاں چلنا ہے ؟ "میں نے پوچھا۔
"جہاں جی چاہے چلو۔ "اُس نے جواب دیا۔ "قیصر کے ریسٹوران سہی۔۔۔۔۔ وہیں کھانا بھی کھالیں گے اور تم اپنے متعلق مجھے تمام باتیں بھی بتا سکوگے۔ ”
"مگر مجھے پہلے تمھارا حال سننے کا شوق ہے۔ "میں نے کہا۔ "مجھے اپنا وہ راز بتاؤا! ”
اُس نے اپنی جیب سے رُوپہلی بکسوئے کا ایک مرا کو کیس نکالا اور میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے اُسے کھولا تواندر ایک عورت کی تصویر نظر آئی۔ وہ نازک اور سروقامت تھی اور اُسکی بڑی بڑی مبہم آنکھوں اور بے ترتیب و بے پروا بالوں سے، ایک عجیب دلآویزی کی شان ٹپک رہی تھی۔ وہ ایک غیب داں کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ اور نہایت قیمتی اور لطیف سمور میں لپٹی ہوئی تھی۔
"اِس کے چہرے کے متعلق تمھاری کیا رائے ہے ؟ اِس سے صداقت ٹپکتی ہے ؟
میں نے تصویرکاغورسے معائنہ کیا۔ اُس عورت کا چہرہ مجھے اُس شخص کاسادکھائی دیا جو کوئی راز رکھتا ہو۔ لیکن یہ مسئلہ کہ وہ راز بُرائی کا پہلو لیے ہوئے تھا۔ یا بھلائی کا۔۔۔۔ میں اِس کا فیصلہ نہ کر سکتا تھا۔ اُس کاحُسن ایساحُسن تھاجوبیسیوں بھیدوں کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو۔ وہ حُسن جو حقیقت میں نفسیاتی ہوتا ہے جمالیاتی نہیں، اثراتی ہوتا ہے۔ تصوراتی نہیں۔ پھر وہ کمھلائی ہوئی مسکراہٹ جواُس کے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ حقیقتاً شیریں ہونے کی بہ نسبت کہیں زیادہ فریب آرا تھی۔
"کیا خیال ہے تمھارا؟ "اُس نے بے صبری سے پوچھا۔
"سموروں میں لپٹا ہوا ایک مرمری بُت۔ "میں نے جواب دیا۔ "مجھے اِس کے متعلق کچھ بتاؤ! ”
"ذرا ٹھہر کر۔ "اُس نے جواب دیا۔ "کھانے کے بعد "اور دوسری باتیں چھیڑ دیں۔
جب ویٹر ہمارے لیے قہوہ اور سگریٹ لا چکا تو میں نے کیوان قدر کواُس کا وعدہ یاد دلایا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ کچھ دیر کمرے میں ٹہلتا رہا اور پھر اپنے آپ کو ایک آرام کرسی پر گرا کے اُس نے مجھے یہ کہانی سنائی:
"ایک دن شام کو۔ "اُس نے کہا۔ "پانچ بجے کے قریب میں چاندنی چوک کی طرف جا رہا تھا۔ چاؤڑی بازار میں گاڑیوں کا اِس قدر ہجوم تھا کہ آمدورفت بالکل رُک گئی تھی۔ چلتے چلتے سامنے جو نظر پڑی تو زرد رنگ کی ایک فٹن (Fitton )نظر آئی جس نے کسی نہ کسی وجہ سے میری توجہ اپنی طرف منعطف کر لی۔ جیسے ہی میں اُس کے پاس سے گزرا اُس میں وہ چہرہ نظر آیا جو کچھ دیر پہلے میں نے تمھیں دِکھایا تھا۔ اُس نے مچھ پرجادوسا کر دیا اور میں اُس روز تمام رات اُسی کے تصوّر میں کھویا رہا۔ دوسرادن میں نے اُس ذلیل بازار میں گذارا اور ہر ایک گاڑی کوغورسے دیکھتا ہوا اور زرد فٹن کا انتظار کرتا ہوا میں شام تک اِدھر اُدھر آوارہ گردی کرتا رہا مگر اُس گاڑی کی جھلک نہ دکھائی دی۔
آنکھوں نے ذرّہ ذرّہ پہ سجدے لٹائے ہیں
کیا جانے جا چھپا مرا پردہ نشیں کہاں؟
بالآخر میں نے سوچا کہ وہ عورت نراسُپناہی سُپناتھی۔
وہ اِس سنسار میں اِک آسمانی خواب تھی گویا
تقریباً ایک ہفتے کے بعد میں مسزگنگولی کے ہاں کھانے پر مدعو تھا۔ ڈنر کا وقت آٹھ بجے مقرّر تھا۔ مگر ہم ساڑھے آٹھ بجے تک ڈرائنگ روم میں بیٹھے رہے۔ بالآخر خادم نے دروازہ کھولا اور لیڈی شجاع کی آمد کی اطلاع دی۔۔۔۔ وہ یہ عورت تھی۔ جس کی تلاش میں مَیں پریشان تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اندر آئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھاجیسے چاند کی ایک نازک کرن بھوری فلیس میں خراماں ہو۔ میری انتہائی مسرّت کہ مجھے اُس کو ڈنر تک لے جانے کے لیے کہا گیا۔
جب ہم سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تومیں نے بالکل بے خبری اور سادگی سے کہا۔ "لیڈی شجاع! میرا خیال ہے کہ کچھ دن ہوئے میں نے آپ کو چاؤڑی بازار میں دیکھا تھا۔ "اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا اور اُس نے بہت آہستہ آواز میں مجھ سے کہا۔ "خدا کے لیے اتنی اونچی آواز میں بات نہ کیجئے ایسانہ ہو کوئی سن لے۔
مجھے اِس بُری طرح آغاز پرافسوس ہوا اور میں نے جلدی سے اُردو فلموں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ اُس نے بہت کم گفتگو کی اور جو کچھ کی۔ اُسی آہستہ موسیقیانہ آواز میں۔ ایسا معلوم ہوتا تھاجیسے اُسے دھڑکا ہے کہ کوئی اور سُن لے گا۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ میں دل و جان سے مگرساتھ ہی نادانی و حماقت سے اُس کی محبّت میں مبتلا ہو گیا۔ گو مبہم رازوں کی اُس فضا نے جواُس کی خاموشی پر محیط تھی۔ میری انتہائی نزاکتِ حسن و خیال کو پریشان کر دیا۔ جب وہ جانے لگی اور یہ ڈنر کے فوراً ہی بعد بروئے کار آیا تو میں نے اُس سے درخواست کی کہ آیا میں اُس سے ملنے آ سکتاہوں۔ یہ سُن کروہ ایک لمحے کے لیے گھبراسی گئی۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی اور تو ہمارے قریب نہیں۔ پھربولی "بہت اچھا کل پانچ بجے "میں نے اپنی میزبان مسزگنگولی سے درخواست کی کہ مجھے اُس کے متعلق کچھ بتائے۔ مگر میں اُس سے جو کچھ معلوم کر سکا یہ تھا کہ وہ ایک بیوہ ہے اور نئی دہلی میں اُس کا خوب صورت اور شاندار مکان ہے۔ اُس کے بعد چونکہ بیواؤں کے متعلق سائنس اور فلسفے کی بحثوں کی طرح خشک اور تھکا دینے والی تقریروں کاسلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اِس لیے میں وہاں سے رخصت ہو کر اپنے مکان کی طرف روانہ ہوا۔
دوسرے دن میں مقررّہ وقت پر نئی دہلی پہنچا لیکن بٹلر کی زبانی معلوم ہوا کہ لیڈی شجاع ابھی ابھی باہر گئی ہے۔ میں انتہائی مایوسی اور پریشانی کے عالم میں اپنے کلب کی طرف چلا گیا۔
"طویل غور و فکر کے بعد میں نے اُسے خط لکھا۔ جس میں اُس سے درخواست کی گئی تھی کہ آیا میں کسی اور دن دوپہر کے وقت اُس سے ملاقات کر سکتاہوں؟ کئی روز تک جواب نہیں آیا۔ آخراُس کا ایک رقعہ ملا۔ جس میں لکھا تھا کہ وہ اتوار کو چار بجے گھر پرمل سکے گی۔ رقعہ غیر معمولی "مکر رآنکہ "پر ختم ہوتا تھا کہ "مہربانی کر کے مجھے آیندہ اِس پتے پر خط نہ لکھیے۔ ملاقات پراِس کی وجہ بتا دی جائے گی۔ ”
اتوار کو وہ اپنی کوٹھی پر موجود تھی۔ اُس نے مجھے اندر بُلا لیا۔ وہ بدستوردلفریب نظر آتی تھی چلتے وقت اُس نے کہا کہ اگر میں آیندہ کبھی اُسے خط لکھنا چاہوں تو "مسزبھارتی۔ معرفت زنانہ لائبریری کوچہ چیلاں "کے پتہ سے لکھوں۔ "چند وجوہ سے "اُس نے کہا۔ "اپنے مکان کے پتے سے خطوط نہیں منگوا سکتی۔ ”
اُس ملاقات کے بعد جو زمانہ گزرا اُس کے دوران میں میں نے اُس کا کافی مطالعہ کیا۔ مگراسرارکی وہ فضاجواُس کی شخصیت کے گرد چھائی ہوئی تھی۔ کبھی اُس سے دور نہ ہوئی۔ کبھی میں سوچتا کہ وہ کسی شخص کے بس میں ہے۔ مگر مجھے وہ اِس درجہ ناقابلِ گرفت نظر آتی تھی۔ کہ میں اِس پر یقین نہ کر سکتا تھا۔ میرے لیے حقیقتاً کسی نتیجے پر پہنچنا بے حد دشوار تھا۔ کیونکہ وہ اُن عجیب بلّوروں کے مانند تھی جو عجائب گھروں میں نظر آتے ہیں جو ایک لمحے میں صاف دکھائی دیتے اوردوسرے لمحے پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ آخرکار میں نے اُس سے شادی کی درخواست کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں اُس کی لگاتار پراسراریت سے اُ کتا گیا تھا۔ جو وہ میری ملاقاتوں اور خطوط کے سلسلے میں عائد کرتی تھی۔
"میں نے لائبریری کے پتے سے لکھا کہ آیا وہ مجھ سے پیر کو چھ بجے مل سکے گی؟ اُس نے اثبات میں جواب دیا اور میرا دماغ خوشی کے مارے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ سچ یہ ہے کہ میں اُس کی محبت میں دیوانہ ہو گیا تھا۔ باوجوداُس اسراریت کے۔۔۔۔ جیسا کہ میرا اُس وقت خیال تھا۔۔۔۔ اور اُس کے نتیجے کے طور پر۔۔۔۔ جیسا کہ میں اب محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے خوداُس عورت سے محبت تھی۔ البتہ اُس کی خُوئے "راز "نے مجھے اذیّت پہنچائی، دیوانہ کر دیا۔۔۔۔ آہ! قسمت نے اُسے کیوں میرے راستے پرلا کھڑا کیا تھا؟
"تو تم نے اُس کے راز کا پتہ لگا لیا؟ "میں نے دریافت کیا۔
شاید "کیوان قدر نے جواب دیا "تم خود اندازہ کر لو گے۔۔۔۔ پیرکے دن مجھے صبح کا کھانا چچا جان کے ہاں کھانا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب میں نے اپنے آپ کو اجمیری دروازہ کے قریب پایا۔ تم جانتے ہو میرے چچا بلی ماراں میں رہتے ہیں مجھے چاؤڑی پہنچنا اورمسافت سے بچنے کے لیے ایک دو مختصر اور غلیظ گلیوں سے گزرنا تھا۔ ابھی میں پہلی گلی میں داخل نہ ہوا تھا کہ میں نے لیڈی شجاع کو بُرقع پہنے اُسی زرد رنگ کے فٹن سے اُتر کر گلی میں داخل ہوتے دیکھا۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی ہوئی گلی کے آخری مکان کے قریب پہنچی اور سیڑھیوں پر چڑھ گئی۔ اوپر پہنچ کراُس نے دروازہ کادستہ گھمایا اور اندر داخل ہو گئی۔ "اب راز افشا ہوا چاہتا ہے ‘‘۔ میں نے اپنے دل میں کہا اور میں تیزی سے آگے بڑھ کر متجسس نظروں سے عمارت کو دیکھنے لگا۔ عمارت ایسی دکھائی دی جیسی آج کل کرایہ پر دینے کے لیے بنوائی جاتی ہیں۔ دروازے کی سیڑھی پر مجھے اُس کا رومال نظر آیا۔ جو شاید جلدی میں گر پڑا تھا۔ میں نے اُسے اُٹھا لیا اور جھٹ سے اپنی جیب میں رکھ لیا۔ اب میں سوچنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ میں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے اُس کی جاسوسی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ فیصلہ کر کے میں آہستہ آہستہ اپنے کلب کی طرف چل دیا۔
"چھ بجے میں اُس کے مکان پر پہنچا۔ وہ ایک صوفے پر دراز تھی۔ اُس نے باولے کا گون پہن رکھا تھا۔ جس کے تکمے بعض عجیب قسم کے حجر القمر کے تھے۔ یہ گون وہ عام طور پر پہنا کرتی تھی۔
وہ بدستور حسین نظر آتی تھی۔ "آپ کی تشریف آوری سے بے حد مسرّت ہوئی۔ "اُس نے کہا۔ "میں تمام دن باہر نہیں گئی۔ ”
میں حیرت سے اُس کا منہ تکنے لگا اور جیب سے اُس کا رومال نکال کر اُس کی طرف بڑھایا۔ "لیڈی صاحبہ! آپ نے اِسے آج دو پہر کو کوچہ قاسم جان میں گرا دیا تھا۔ "میں نے سکون کے ساتھ کہا۔ اُس نے میری طرف خوف زدہ نظروں سے دیکھا لیکن رومال لینے کے لیے مطلقاً کوئی اشارہ ظاہر نہیں کیا۔ آپ وہاں کیوں گئی تھیں؟ "میں نے پوچھا۔
"آپ کو مجھ سے ایسے سوال کرنے کا کیا حق ہے ؟ "اُس نے جواب دیا۔
"وہ حق جو ایک محبت کرنے والے کو ہوتا ہے۔ "میں نے جواب دیا۔ میں تو آپ کی خدمت میں شادی کی درخواست کرنے کی غرض سے حاضر ہوا تھا۔ ”
اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھُپا لیا اور زار قطار رونے لگی۔ "تمھیں بتانا پڑے گا "میں کہے گیا۔ وہ کھڑی ہو گئی اور میرا منہ تکتے ہوئے بولی۔
"نواب صاحب کوئی ایسی بات نہیں جو آپ کو بتانے کے قابل ہو۔ ”
"آپ وہاں کسی شخص سے ملنے گئی تھیں۔ "میں نے چلّا کر کہا۔ "یہ آپ کا راز ہے ‘‘اُس کا چہرہ دہشت سے زرد پڑ گیا اور وہ بولی۔ "میں کسی شخص سے ملنے نہیں گئی۔”
"کیا آپ سچ سچ نہیں بتا سکتیں؟ "میں نے غصّے سے کہا۔
"میں بتا چکی ہوں۔ "اُس نے جواب دیا۔
"میں دیوانہ ہو گیا تھا۔ مغلوب الغضب ہو گیا تھا۔ اِس عالم میں نہ جانے کیا کچھ کہہ گزرا۔ لیکن جو کچھ بھی کہا وہ اُس کے لیے حد درجہ خوفناک تھا۔ اُسی طرح بکتے جھکتے میں تیزی سے اُس کے مکان سے باہر نکل گیا۔ دوسرے دن مجھے اُس کا خط ملا۔ لیکن میرا غصّہ۔؂
ایسا نشہ نہ تھا جسے تُرشی اُتار دے
میں نے خط بغیر کھولے واپس کر دیا اور رشید جاوید کے ساتھ افغانستان روانہ ہو گیا۔
"ایک ماہ کے بعد میں واپس آیا تو پہلی چیز جو میں نے "ہمدرد "میں پڑھی۔ وہ لیڈی شجاع کے انتقال کی خبر تھی۔ اُسے سینما میں سردی لگ گئی تھی۔ چنانچہ پانچ روز تک پھیپھڑوں کے انجمادِ خون کے بعد اُس نے سرائے فانی کو الوداع کہا۔ اِس صدمے کی وجہ سے میں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور ہر قسم کی ملاقاتوں کا سلسلہ بند کر دیا۔ میں اُس سے اِس درجہ محبّت کرتا تھا! میں اُس سے اِس دیوانگی کے ساتھ محبت کرتا تھا۔ اللہ میں اُس عورت سے کس درجہ محبت کرتا تھا۔ ”
"تم پھر کبھی اُس گلی میں گئے ؟ اُس مکان پرجواُس گلی میں تھا۔ "میں نے دریافت کیا۔
"ہاں "اُس نے جواب دیا۔
"ایک روز میں کوچہ قاسم جان کی طرف گیا۔ میں وہاں جائے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ میرے دل کوشک و شبہ کے نشتر ہلاک کیے دیتے تھے۔ میں نے اُسی مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک معزّز صورت بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا۔ میں نے پوچھا کچھ کمرے کرایہ کے لیے خالی ہیں یا نہیں؟
"جی ہاں حضور! "اُس نے جواب دیا۔ "دو تین کمرے خالی ہونے والے ہیں۔ جن بیگم صاحبہ نے اِن کمروں کو کرایہ پرلے رکھا تھا۔ وہ کوئی تین مہینے سے نہیں آئیں۔ ناحق بن ناحق کو کرایہ چڑھ رہا ہے۔ اِس لیے آپ اُن کولے سکتے ہیں۔ ”
"وہ بیگم صاحبہ یہ تو نہیں؟ میں نے تصویر دِکھاتے ہوئے پوچھا۔
"وہی ہیں حضور! عین مین وہی! "اُس نے چلّا کر کہا "اور کیوں حضور وہ کب تک آئیں گی؟ ”
"اب نہیں آئیں گی۔ اُن کا انتقال ہو گیا ہے۔ "میں نے جواب دیا۔
"اللہ نہ کرے "اُس عورت نے کہا "وہ بچاری میری سب سے زیادہ شریف اور نیک کرایہ دار تھی۔ تیس روپے کرایہ دیتی تھی اور وہ بھی اِس حالت میں یہاں رہتی نہ تھی۔ وہ بالکل صرف ذرا کی ذرا کبھی اِن کمروں میں آ بیٹھتی تھی۔ ”
"بڑی بی! کیا وہ یہاں کسی مرد سے ملنے آتی تھی؟ ”
بالآخر میں دریافت کیا۔ لیکن مالکہ مکان نے مجھے یقین دلایا کہ یہ بات نہ تھی۔ وہ بالکل تنہا آتی تھی اور مرد چھوڑ اِس جگہ کسی عورت سے بھی نہیں ملی۔
"خدا کے لیے، پھر وہ یہاں کیا کرنے آتی تھی؟ "میں چلّایا۔
"جناب وہ صرف کمرے میں بیٹھتی تھی۔ کتابیں پڑھتی تھی۔ یا کبھی کبھی چائے پی لیا کرتی تھی۔ اُس عورت نے جواب دیا۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ اب میں اِس عورت کو کیا کہوں۔ میں نے اُسے پانچ روپے دیئے اور چپ چاپ وہاں سے چلا آیا۔۔۔۔ اب تم بتاؤ! میرے دوست! اِن تمام باتوں کے کیا معنی ہیں؟ کیا تمھیں یقین ہے کہ مالکہ مکان نے مجھ سے سچ بولا؟ ”
"بے شک مجھے یقین ہے۔ ”
"تو پھر لیڈی شجاع وہاں کیوں جایا کرتی تھی؟ ”
"کیوان! میرے دوست! "میں نے جواب دیا۔ لیڈی شجاع اُن عورتوں میں سے تھی جن کو پُر اسرارو پُر راز بننے کا خبط ہوتا ہے اُس نے اِن کمروں کو محض اِس غرض سے کرایہ پر لیا تھا کہ وہ وہاں برقعہ پہن کر جائے اور اپنے تئیں ایک ہیروئن محسوس کرنے کی لذّت حاصل کرے۔ وہ اسراریت کا جذبہ رکھتی تھی۔ لیکن بذاتِ خود ایک ایسا ابو الہول تھی جس کا کوئی راز نہ ہو۔
"کیا واقعی تمھارا یہ خیال ہے ؟ ”
"خیال ہی نہیں مجھے اِس پر یقین ہے۔ "میں نے جواب دیا۔
کیوان قدر نے اپنامراکو کیس نکالا۔ اُسے کھولا۔ پھر فوٹو کو دو بارہ غور سے دیکھا۔ "کیسی عجیب بات ہے۔ "آخر میں اُس نے صرف اتنا کہا۔
(انگریزی افسانہ) (آسکر وائلڈ)

اختر شیرانی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سعید خان کی اردو غزل