- Advertisement -

کرفیو آرڈر

ایک افسانہ از اختر شیرانی

کرفیو آرڈر

اہور کی راتوں پر کرفیو آرڈر کی حکومت تھی۔ رات کے آٹھ بجے سے لیکر صبح پانچ بجے تک کوئی متنفّس گھرسے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ البتہ سرکاری اور اخباری کارکنوں کو کرفیو پاس مل گئے تھے تاکہ وہ اپنے اپنے شبانہ فرائض انجام دے کر گھر پہنچ سکیں۔ رات کے دو بجے تھے۔ چاروں طرف خاموشی اور سکومت کی حکمرانی تھی۔ اخبار "جمہور "کا نائٹ ایڈیٹرسلیم کرفیوپاس جیب میں ڈالے تیز قدم اُٹھاتا ہوا اپنے گھرکی طرف جا رہا تھا۔ وہ شیرانوالہ دروازہ سے نکل کرسرکُلر روڈ پر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ سڑک سنسان اور ریلوے لائن ویران تھی۔ اُس کے دائیں طرف سرکُلرگارڈن کے عظیم الشّان درخت چاندنی میں بھوتوں کے مہیب اور ساکت سایوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔
"کرفیو آرڈر۔۔۔۔۔۔ پولیس۔۔۔۔۔۔ فوج۔۔۔۔۔۔ عدالتیں۔۔۔۔۔۔ اور حکومت۔۔۔۔۔۔ بیوی اِن سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ "اِس خیال کے آتے ہی وہ مسکرادیا۔ اُس کے قدموں میں زیادہ تیزی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اُس کے بازوؤں میں زیادہ حرکت پیدا ہو گئی۔۔۔۔۔۔ اُس کی شادی کو صرف چند روز گزرے تھے اور شادی کی پہلی رات کے بعداُس کی بیوی آج پہلی مرتبہ اُس کے گھر آئی تھی۔۔۔۔۔۔ جس کا اشتیاق اُسے کشاں کشاں گھر کی طرف کھینچے لیے جا رہا تھا۔ نئی نئی بیوی اور نیانیابستر۔ اُس کے دل و دماغ میں بسا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ یکایک فضاسے لباسِ عروسی کی خوشبو آئی اور اُس کی بیوی کی حسین و مخمور آنکھیں اُس کی شوق بھری آنکھوں میں پھِر گئیں۔ اُس کے قدم تیز ہو گئے۔۔۔۔۔۔ وہ جلد۔۔۔۔ بہت ہی جلد گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔
وہ گوروں کی پہلی چوکی کو بائیں طرف چھوڑتا ہوا کوتوالی کے قریب پہنچاجس کے بعض بالائی کمروں سے روشنی نظر آ رہی تھی۔ تمام شہرپرسنّاٹاچھا رہا تھا۔ دُنیا خوابیدہ تھی۔ البتّہ پولیس اور فوج بیدار تھی۔ کتّوں کے بھونکنے کی آواز بھی آج خاموش تھی۔ "شاید کتّے بھی حکومت سے ڈرتے ہیں۔ "سلیم سوچ رہا تھا۔ اکبری دروازہ کی طرف سے پولیس کے سواروں کا ایک دستہ آتا ہوا نظر آیا۔ اُن کے قوی ہیکل گھوڑوں کی خوفناک ٹاپیں چارسُوچھائے ہوئے سکوت کے عالم میں تزلزل پیدا کر رہی تھیں۔ ایسامحسوس ہوتا تھاجیسے سنسان جنگل میں بادل گرج رہا ہے۔ بائیں طرف کی عمارتوں نے چاند کی ہلکی ہلکی سفیدکرنوں کو چھُپا لیا تھا۔ سڑک پر عمارتوں کے سائے اور دائیں طرف باغ کے درخت عظیم الجثّہ دیوؤں کی طرح چھائے ہوئے تھے۔ دفعتاً ہوا میں دھُندلکا چھا گیا۔ جیسے کسی بادل کے ٹکڑے نے چاند کو چھُپا لیا ہو۔ چاند کے تصوّر کے ساتھ ہی ایک اور چانداُس کی نظروں کے سامنے آگیا۔ وہ چاندساچہرہ جواطلس و کمخواب کے ایک حسین و نازنیں مجسّمے کی شکل میں اِس وقت اُس کے کمرے میں موجود ہو گا۔ بیوی کے اشتیاق نے اُس کے پر لگا دیئے اور وہ اُس سست رفتاری کو چھوڑ کر جو سواروں کی آمد کا نتیجہ تھی، ازسرِنوتیزقدم اُٹھانے لگا۔ اِس حال میں کہ بیوی کاتصوّراُس کے دل و دماغ پر نشے کی طرح چھایا ہوا تھا۔
سواراُس کے قریب آ گئے۔ گھوڑوں کی ٹاپوں کی تیز اور پُر شور آوازوں نے اُس کے تصوّرات کے تمام حسین و رنگین گھروندے کو پامال کر دیا اور اُس کی جگہ ایک ہلکے سے خوف نے لے لی۔ فرض کرو وہ اپناپاس دفتر ہی میں بھول آیا ہو! اور یہ سوارپوچھ بیٹھیں توکیسی بنے ؟ اِس خیال کے آتے ہی اُس کا دایاں ہاتھ بے اختیار اُس کے سینے کی بائیں جیب کی طرف بڑھا ایک سخت کاغذ کے ٹکڑے کی موجودگی نے اُس کے لبوں پر اطمینان کی مسکراہٹ پیدا کر دی۔ وہ پھر تیزی سے چلنے لگا۔ مگر ابھی چار قدم چلا ہو گا کہ پھر رُ کا۔۔۔۔ اگرکرفیوپاس کے باوجود یہ سوار اُسے کوتوالی میں لے جائیں، اُس کے پاس کو چھین لیں۔ یاتسلیم نہ کریں اور اُسے تمام رات حوالات میں رہنا پڑے تو۔۔۔۔ ؟ کتنا خوفناک خیال تھا! خوفناک اور تکلیف دہ! اپنی نئی نویلی بیوی سے دُور اپنے اطلسی اور مخملی بسترسے دور، اپنی آرام دہ اور شاندارمسہری سے دور، اپنے آراستہ وپیراستہ کمرے سے دُور۔۔۔۔ رات بھر دُور رہنا۔۔۔۔ ! اُس کمرے سے جو چند ہی روز ہوئے جہیز کے سامان سے مزیّن ہوا تھا۔۔۔۔ ! اُس کی پیشانی پربل پڑ گئے۔ اُس کی گردن جھک گئی۔ اُس کی رفتار میں اضمحلال پیدا ہو گیا۔۔۔۔ ایسی حالت میں وہ کیا کر سکتا تھا؟ پولیس۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ فوج کے مقابلے میں وہ کر ہی کیا سکتا تھا؟ اِس حالت میں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کتنا مجبور ہے۔ کس قدر مظلوم ہے ! کس درجہ بے بس ہے !
مجبوری، مظلومیت اور بے بسی کے احساس نے اُسے غضب ناک کر دیا، نہیں، نہیں، وہ حوالات میں رات نہیں گزارسکتا! وہ کسی طر ح اپنے گھر سے دور نہیں رہ سکتا! اُسے دنیا کی کوئی طاقت گھر پہنچنے سے نہیں روک سکتی! وہ ہر حالت میں اپنے گھر جائے گا! وہ بہرصورت اپنے کمرے میں سوئے گا۔ اپنی لاڈلی بیوی کے ساتھ اُس کے مشکبو کاکلوں کی چھاؤں میں! اُس کے مخملیں جسم کے قریب! اُس کے ریشمیں بالوں کی خوشبوسے لپٹ کر، اُس کے مرمریں بدن کے گداز میں ڈوب کر۔۔۔۔ ! ایک ابدی مسرّت اور ابدی بے خودی میں محو ہو کر!
تخیّل و تصوّر کی سرخوشی نے اُس کے غیظ و غضب کو کچھ کم کیا اور وہ پھر تیز تیز چلنے لگا۔ "یہ سوارمجھے روکیں گے ؟ "سواروں کے قریب سے گزرتے ہوئے اُس نے پھر غرور آمیز انداز میں سوچا۔ "نہیں نہیں۔ میں نہیں رک سکتا۔ چاہے کچھ بھی ہو! "ہاں چاہے تمام دستہ اُسے گھیر لے ! چاہے ڈپٹی کمشنر معہ اپنے تمام اختیارات کے وہاں کیوں نہ آ جائے ؟ وہ نہیں رک سکتا! اُس کی گردن تن گئی۔ اُس کے قدموں میں بجلی کی سی تیزی پیدا ہو گئی۔ یہاں تک کہ سواروں کادستہ چپ چاپ اُس کے قریب سے گزر گیا۔ اُسے کسی نے نہیں روکا۔
دہلی دروازے سے آگے بڑھ کر، فوجی سپاہیوں کی ایک اور زبردست چوکی تھی۔ اُس کے قریب سے گزرتے ہوئے اُس کی رفتاربدستورتیزرہی۔ وہ شوق ومسرّت اور استقلال و جرأت کے عالم میں برابر آگے بڑھتا گیا۔ بہت سے گورے اورگورکھاسپاہی جاگ رہے تھے۔ بعض سگریٹ پی رہے تھے۔ بعض نے بندوقیں سنبھال رکھی تھیں۔ زیادہ تر حِصّہ چارپائیوں پر دراز تھا۔ سرہانے کی طرف ایک دو بجلی کے پنکھے رکھے تھے مگر پچھلے پہر کی خنکی کی وجہ سے بند تھے۔ اِس جگہ کوپھوس کے ایک بہت بڑے چھپّرسے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ حکومت کو اندیشہ تھا کہ مسجد شہید گنج کا قضیہ جلد ختم نہ ہو گا۔ اِس لیے اپنے محبوب سپاہیوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے ایک عارضی چھت کی سخت ضرورت تھی۔ چاند نے بادل کا نقاب اُتار دیا تھا اور اُس کی روشنی میں یہ چھپّراِس وقت ہیبت اور دہشت کا مرقّع تھے۔ پستہ قامت گوروں اور گورکھوں کو دیکھ کرسلیم نے اپنے دل میں کہا۔ "یہ ہیں سوا تین تین فٹ کے بوزنہ نماسپاہی جن کے بل پر شیرِ برطانیہ نے آدھی دنیا پر قبضہ کر رکھا ہے۔ "اِس خیال کے آتے ہی وہ پھر مسکرادیا۔ اُسے اپنے کشیدہ قامت اور تنو مند جسم کی طاقت کا احساس ہوا۔۔۔۔ اگر اِن سپاہیوں میں سے کوئی اُسے چھیڑ دے ! کوئی اُس سے بے ہودہ مذاق کرے ! اُسے رات کو باہر نکلنے کے جرم میں روک لے۔۔۔۔ اُس کا ہاتھ پھر بے اختیاراُس کی جیب کی طرف بڑھا۔۔۔۔ پاس موجود تھا!۔۔۔۔ لیکن اگر وہ پاس کے باوجوداُسے روک لیں۔۔۔۔ ! اُس کا دل بیٹھنے لگا۔ اُس کی نئی نویلی بیوی کی صورت اُس کی آنکھوں میں پھِر گئی۔۔۔۔ اُس کی نازک و نازنیں شخصیت نے اُس کی ہمّت بندھائی! اُس نے پھر اُن بالشتیے سپاہیوں پر ایک حقارت کی نظر ڈالی۔ "یہ سات آٹھ جو باہر کھڑے ہیں۔ اِن کے لیے تومیں کافی ہوں۔ اِن کے قبضے میں تومیں نہیں آ سکتا۔ "اُس نے اپنا دایاں پاؤں زورسے زمین پر مارا۔ غصّے سے اپنی دونوں مٹھیاں بند کر کے اپنی کلائیوں اور بازوؤں کی طاقت کا اندازہ کیا۔ ایسا کرتے ہوئے اُس کی نظر چھپّر کے اندر چارپائیوں پر پڑی۔ اُن کی تعدادپچاس ساٹھ کے قریب معلوم ہوتی تھی۔ اتنے سپاہیوں کا وہ تنہا کیونکر مقابلہ کر سکتا تھا؟ اُس پر پھر مایوسی کا غلبہ ہونے لگا۔۔۔۔ "مگرپاس کی موجودگی میں یہ لوگ مجھے کیوں روکنے لگے ؟ "لیکن اندیشہ۔۔۔۔ اندیشے کی آواز کہہ رہی تھی۔ "اِن کا کوئی بھروسہ نہیں مگر۔۔۔۔ کچھ بھی ہو وہ گھر ضرور جائے گا۔۔۔۔ گورکھے اور گورے در کنار خود گورنر بھی آ جائے تو وہ نہیں رُک سکتا۔ وہ کیوں کر رُک سکتا ہے ؟ اُس کی بیوی منتظر تھی! آہ! وہ اُس کی حسین و مہ جبین بیوی! وہ اُس کی شیریں نو اور رنگین لقا بیوی!۔۔۔۔ جس نے اُس کی زندگی کو نئی نئی مسرّتوں سے آشنا کیا تھا! جس نے اُس کی ہستی کو ایک ابدی بے خودی کا گہوارہ بنا دیا تھا! وہ نئی نویلی دُلہن جس کے شاداب وسیاہ بالوں کی خوشبو اب تک اُس کے شامّہ کی فضاؤں میں بسی ہوئی تھی! جس کے ابریشمیں ملبوس کی عطر آگینی اب تک اُس کے تنفّس میں موجزن تھی! نہیں نہیں! دنیا کی کوئی طاقت اُسے نہیں روک سکتی!
اب اُس کے قدم پھر تیزی سے بڑھنے لگے۔ فوجی چوکی اور اُسی کے ساتھ اُس کے خوف کو وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ اُس وقت وہ شاہ محمد غوث کے مزار کے قریب تھا۔ جس کے دونوں طرف کئی قہوہ خانے آباد ہیں۔
چلتے چلتے دفعتاً وہ رُک گیا۔ دائیں طرف کی ایک تنگ اور مختصرسی گلی سے (جو ایک قہوہ خانے کی بغل میں تھی) اُسے دو شخصوں کے جھگڑنے کی سی آواز آئی۔ ایک شخص کہہ رہا تھا۔ "رُوتی کیوں نہیں دینا سکتا۔ تُو رُوتی دے گا۔ "اوردوسری آواز کہہ رہی تھی۔ "خان صاحب! اللہ کی قسم روٹی اور سالن سب ختم ہو چکا ہے۔ "سلیم خود بھی کبھی کبھی اِس قہوہ خانے میں چائے پی جایا کرتا تھا۔ اِس لیے اُس نے پہلی آواز سنتے ہی معلوم کر لیا کہ کوئی تازہ وارد پٹھان ہے جو ہوٹل کے مالک سے کھانا طلب کر رہا ہے۔۔۔۔ سلیم نے چاہا کہ اپنی راہ چلا جائے۔ مگر یہ سوچ کر کہ شاید ہوٹل والاپولیس والوں کے ڈرسے اِس پٹھان کواِس وقت کھانا نہیں دینا چاہتا۔ سفارش کی غرض سے گلی میں مڑ گیا۔
پٹھان ہوٹل کی پچھلی طرف کے بغلی دروازے کو پکڑے کھڑا تھا۔ چاندنی کا اِس گلی میں داخل ہونا محال تھا۔ تاہم اتنی روشنی ضرور تھی کہ وہ پٹھان کی بڑی سی پگڑی، سرخ مخملی واسکٹ، گھیر دار شلوار، اورسیاہ داڑھی کو دیکھ سکے۔ اُس کے قریب پہنچاتوسلیم کو ہوٹل والا نظر آیا۔ جو دروازے کو دونوں ہاتھوں سے اِس طرح پکڑے کھڑا تھاجیسے اُسے اندیشہ ہے کہ پٹھان زبردستی اُس کے ہوٹل میں گھس آئے گا۔ اُس کے پیچھے کمرے کے ایک کونے میں ایک لالٹین روشن تھی۔ جس کی دھندلی روشنی میں امجد کا قد نمایاں ہو رہا تھا۔
"کیا بات ہے ! امجد؟ اِنھیں کھانا کیوں نہیں دیتے تم؟ ”
"اخّاہ آپ ہیں؟ میاں سلیم! میں تو ڈر گیا تھا کہ کوئی پولیس والا ہے "یہ کہہ کروہ دروازے سے ہٹ گیا۔ سلیم اور اُس کے پیچھے پٹھان اندر داخل ہو گئے۔ امجد نے جلدی سے دروازہ بند کر لیا۔ ایسا کرتے ہوئے اُسکی نظریں پٹھان پر جمی ہوئی تھیں۔ جیسے وہ اُسکی موجودگی سے رنجیدہ ہو۔
"آغا، ام گرسنہ بُوکابسیارسخت بوکا۔ ولِکن یہ مالک کیتا۔۔۔۔ رُوتی نئیں، رُوتی نئیں۔ یہ کیس طرا کا آدم اے ‘‘۔ پٹھان نے سلیم کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
"کیوں امجد! کیا واقعی کھانا ختم ہے۔ دیکھو کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ "سلیم نے امجدسے کہا۔ "میاں سلیم آپ کے سرکی قسم! کوئی چیز نہیں۔ آج اللہ کا فضل تھا۔ گاہک بہت۔۔۔۔ ”
"ذرادیکھوبسکٹ، خطائی، پیسٹری کوئی چیز تو ہو گی۔ ”
"اللہ کی قسم جھوٹ نہیں بولتا۔ شکر تک ختم ہے۔۔۔۔ "پھر پٹھان کو مخاطب کر کے بولا۔
"آغا جان اب جاؤ۔ کوئی پولیس والا آ گیا تو مجھے اور تمھیں دونوں کو پکڑ کر لے جائے گا۔ "یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھا تاکہ اُس کو باہر نکال کر دروازہ پھر بند کر دے۔ "مگر ام کیدر جائے گا۔ آغا خدا اور رسول کاواسطہ ای ام زیاد پیسہ دیں گا۔ "یہ کہہ کراُس نے سلیم کی طرف دیکھا۔ گویا مزید سفارش کا طلبگار ہے۔ مگر زیادہ کہنا سننا لا حاصل تھا۔ سلیم کو معلوم تھا کہ امجد کے پاس واقعی کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں بچی ہے۔ ورنہ وہ کم سے کم اُس سے (سلیم سے ) انکار نہ کرتا۔

سلیم لکڑی کی ایک معمولی سی بینچ پر بیٹھا تھا۔ لالٹین کی دھُندلی روشنی میں اُس کی متفکّر نگاہیں کسی چیز پر جمی ہوئی تھیں۔ پانی کے گھڑے پریا طاق میں لیمونیڈ کی بوتلوں پر۔۔۔۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ ظاہر تھا کہ اُس کو پٹھان سے ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔۔۔۔ وہ آج اتفاق سے خود بھی شام کا کھانا نہیں کھاسکا تھا۔ لیکن بیوی سے ملاقات کے شوق میں اُسے کھانے کی چنداں پرواہ نہ تھی۔ تاہم اِس میں شک نہیں کہ اب وہ بھوک کی تکلیف محسوس کر رہا تھا۔ اور اِس ذاتی تکلیف کے احساس نے اُسے پٹھان کی گرسنگی کی تکلیف سے اچھی طرح باخبر کر دیا تھا۔ اُس نے دائیں بائیں نظر ڈالی۔ گویا امجد کی بات بھول کروہ کسی کھانے کی چیز کی تلاش میں ہے۔ ایک کونے میں دو گھڑے رکھے تھے۔ ایک پر ایک تام لوٹ پڑا تھا۔ ایک ٹوٹی پھوٹی الماری پر چند بے دھُلی پلیٹیں نظر آئیں۔ کمرہ بحیثیتِ مجموعی غلیظ حالت میں تھا۔ مگر اپنے نفیس مذاق کے باوجود اُسے وہاں بیٹھنا ناگوار نہ تھا کیونکہ وہ زندگی کا ہر ایک رنگ یا زندگی کو ہر ایک رنگ میں دیکھنے کا شائق تھا۔ علاوہ بریں وہ جانتا تھا کہ دوسرے کمرے میں(جسے صحیح معنی میں ہوٹل کہنا چاہیئے )اِس وقت بیٹھنے کے یہ معنی تھے کہ بجلی کی روشنی کی جائے اور یہ امر شاید ہوٹل کے مالک کو گوارا نہ تھا۔ پولیس کے ڈرسے اُس کی روح فنا ہوتی تھی۔ اِس وقت اُسے اپنا کمرہ یاد آ رہا تھا۔ وہ کمرہ جو کچھ روز ہوئے جہیز کے سامان سے آراستہ کیا گیا تھا۔۔۔۔ وہ کمرہ جس میں آج جہیز کی سب سے زیادہ "قیمتی چیز "موجود ہو گی! یعنی خود جہیز والی۔۔۔۔ ! اُس کا جی چاہا کہ بے اختیار اُٹھ کھڑا ہو اور گھر کی طرف دوڑ جائے۔ مگر غریب پٹھان بھوکا ہے ! اُس کی فکر نے اُسے پا بہ زنجیر کر رکھا تھا۔ وہ اُسے اِس حالت میں چھوڑ کر جانے کی ہمّت اپنے آپ میں نہیں پاتا تھا۔ وہ اُسےبھوکاچھوڑ کر کیونکر جائے ؟ وہ اپنے دل کواتناسخت کیونکر بنائے ؟
اُس نے پٹھان کی طرف دیکھا۔ جس کی نظریں خالی پلیٹوں پر جمی ہوئی تھیں۔ خدا جانے وہ کب سے اِن بے دھُلی پلیٹوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اگر یہ خالی پلیٹیں اِس وقت کسی معجزہ کے اثرسے کھانے سے بھری ہوئی نظر آئیں تواُسے کتنی مسرّت ہو! وہ خوشی کے مارے ناچنے لگے۔ اور شاید گھر تک ناچتا ہوا جائے، مگر یہ اُمیدیں لاحاصل تھیں۔ دنیا میں کوئی خالی پلیٹ ایسامعجزہ نہیں دِکھا سکتی۔۔۔۔ خواہ وہ دنیا کے کسی عظیم ترین بادشاہ کے باورچی خانے کی پلیٹ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ !
خیالات کی پریشانی سے گھبرا کروہ اُٹھ کھڑا ہوا اور شیروانی کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے اِدھر اُدھر پھِرنے لگا۔ اُس کی نظروں نے ایک مرتبہ اور کمرے کا جائزہ لیا۔ اُسے خیال آیا کہ اگر یہ ہوٹل اُس کا گھر ہوتا تو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا۔ گھر کا خیال آتے ہی اُس نے سوچا کہ وہ پٹھان کو اپنے ساتھ گھر لے جائے اور کھانا کھلا کر۔۔۔۔ لیکن پٹھان کے پاس کرفیو پاس کہاں سے آیا؟ اور اُس کے ایک پاس میں دونوں کا جانا یقیناً خطرناک تھا۔ افسوس وہ اُسے اپنے ساتھ بھی نہ لے جا سکتا تھا۔
"امجد آٹا تو کچھ ہو گا کچھ چپاتیاں ہی بنا دیتے ؟ "اُس نے ٹہلتے ٹہلتے یک لخت رُک کر امجد سے کہا۔
"میاں آٹاتوتھوڑاساموجودہے۔ مگر چولھا باہر کی طرف ہے۔ آپ کی خاطر ابھی روٹی پکا دیتا۔ مگراِس وقت۔۔۔۔ آج کل آپ کو معلوم ہے۔۔۔۔ پولیس والوں نے دیکھ لیا تو بڑے گھر بھیج دیں گے۔۔۔۔ لینا ایک نہ دینا دو۔۔۔۔ مفت میں۔۔۔۔ ”
"ٹھیک ہے ‘‘۔ اُس نے امجد کی بات کاٹتے ہوئے بے خیالی سے کہا اور پھر ٹہلنے لگا۔ اُس کے خیالات ایک عجیب و غریب کشمکش میں مبتلا تھے۔ پٹھان کھڑا ہوا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سلیم کوایسامحسوس ہوا کہ اُس کی حسرت بھری نظریں کبھی خالی برتنوں کا طواف کرتیں اور کبھی سلیم کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔
"سلیم صاحب کوئی پولیس والا نہ آ جائے۔ "پھر پٹھان کی طرف رُخ کرتے ہوئے اُس نے کہا "لو آغا اب جاؤپولیس کے سوارآنے والے ہیں۔ شاید تم سامنے والے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہو۔۔۔۔ کچھ بھی ہو۔ اب جا کر آرام کرو ‘‘۔
پٹھان مایوس ہو کر دروازے کی طرف بڑھا۔ امجد نے آہستہ سے دروازے کی کُنڈی کھولی۔ پھر ایک پٹ تھوڑاساہٹایا اور گلی میں جھانک کر دیکھا۔ اُس کے بعداُس نے سر کے اشارے سے پٹھان کو بلایا۔ پٹھان دروازے کے قریب آگیا۔
دفعتاً سلیم ٹہلتے ٹہلتے رُک گیا۔ "ٹھہرنا۔۔۔۔ امجد۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ مگر ذرا ٹھہرو۔۔۔۔ "وہ دروازے کے قریب آگیا اور پٹھان سے بولا "دیکھو خان! سیدھے انارکلی چلے جاؤ۔ میرا نام لے کر عثمانیہ ہوٹل کا دروازہ کھلوا لینا۔ نوکر دروازے کے ساتھ سوتا ہے۔ اُس کا نام غلامی ہے۔ راستے میں کوئی پولیس والا پوچھے تو یہ پاس دِکھا دینا ‘‘۔
اُس نے اپنی جیب سے کرفیوپاس نکال کر پٹھان کی طرف بڑھا دیا۔ پٹھان نے اُسے لے لیا اور ایک ممنونیت کی نظراُس پر ڈالتا ہوا چپ چاپ گلی میں نکل گیا۔
"امجد دروازہ بند کر دو اور مجھے ایک پیکٹ سگریٹ دے دو۔ کوئی بہت تلخ سگریٹ ہو۔ ہاں کیوِنڈر ٹھیک رہے گا۔۔۔۔ میں آج کی رات تمھارا مہمان ہوں۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں تمھاری چارپائی تمھیں مبارک ہو!۔۔۔۔۔۔ اخباری زندگی نے مجھے راتوں کو بنچوں پرسونے کا عادی بنا دیا ہے۔ ”
ہوٹل کا مالک سگریٹ دے کر اپنی زمین بوس چارپائی پر دراز ہو گیا اورسلیم ٹوٹی ہوئی بنچ پر لیٹ کرسگریٹ کے دھوئیں اُڑانے لگا۔
امجد کا بیان ہے کہ اُس رات سلیم نیند میں یہ شعر گُنگنا رہا تھا۔
"یا الٰہی پھر ہم کو وہ گھڑی میّسر ہو
نرم نرم بیوی ہو، گرم گرم بسترہو! ! ”

اختر شیرانی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از اختر شیرانی