- Advertisement -

پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے

منیر انجم کا ایک اردو کالم

پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے اگر یہ سوال آپ کسی سے بھی پوچھیں گے تو اس کے پاس ڈھیروں جواب ہوں گے ۔۔ کہ پہلے کرپشن کو ختم کرنا ہوگا تعلیم کو عام کرنا ہو گا روزگار کے آسان مواقع فراہم کرنا ہوں گے اور سب سے بڑا مسلہ ملک سے مہنگائی کو ختم کرنا ہو گا مگر کیسے ؟ یہاں پہ آکر دماغ گھوم جاتا ہے کرپشن ہمارے ملک میں وہ ناسور بن چکی ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ وہ دلدل ہے جو اس میں دهنس جاتا ہے واپس نہیں آتا ہم نے سنا ہے کہ چینی ماہرین کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر آیا تھا یہ لوگ ایک کمپلیکس گئے وہ ابھی نیا بنا تھا انہوں نے وہاں دیکھا کہ ایک چھت ٹپک رہی ہے وفد کا ایک رکن یہ دیکھ کر ہنس پڑا میزبان سارا معاملہ سمجھ گیا لہذا اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا چھت ابھی نئی بنی ہے ہم اس میں موجودہ فالٹ تلاش کر رہے ہیں تو وفد کا وہ مہمان بے اختیار ہنس دیا اور بولا شروع شروع میں ہماری چھتیں بھی ایسے ہی ٹپکتی تھیں پھر اس کا ہم نے فوری حل نکال لیا اور اس ٹھیکیدار کو ہی گولی مار دی جس کی وجہ سے چھت ٹپکتی تھی اور اس کے بعد چھت نئی ہو یاں پرانی کبھی نہیں ٹپکی یہ تو چین کی مثال ہے اگر ہم اپنے مسلمان ملک سعودی عرب کی بات کریں تو وہاں پر لوگ اپنی دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں چاہے دکان جوتوں کی ہو یا ہیروں کی مجال ہے جو چوری ہوتی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ چور کو پتہ ہے کہ اگر وہ پکڑا گیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا یہاں پر میں آپ کو ایک بات یاد دلاتا جاؤ کہ چین میں چوری کی سزا سزائے موت ہے اور جب اس کے گھر والے لاش لینے آتے ہیں تو ان کو اس گولی کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے جس سے چور کو مارا گیا ہو تو آپ خود سوچ لیں کہ چور چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا مگر یہاں چور تو بڑی دور کی بات کا قاتل بھی آسانی سے جیل سے رہا ہو جاتے ہیں تبھی تو ہر طرف لوٹ مار چوری ڈکیتی زناکاری رشوت اور ایسے ایسے سنگین جرائم ہوتے ہیں جن کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا یہاں تھانوں میں اکثر ایسے ایسے کیس پڑے ہیں جن کا سالوں سے کوئی بھی نتیجہ نہیں نکلا اور مجرم آرام سے زندگی گزار رہے ہیں
ان کو پکڑے جانے کا کوئی خوف نہیں ہاں اگر پکڑے بھی گئے تو تھوڑے بہت پیسے دے کر دو چار دن جیل میں رہ کر باہر اس کو کیا ضرورت ہے جرم چھوڑنے کی جب لے دے کر جان چھوٹ جائے ہماری عدالتوں کا یہ نظام ہے سالوں سال کیس چلتے رہتے ہیں وکیل اپنی جیبیں بھرتے رہتے ہیں اور اوپر سے جو بندہ قتل کرتا ہے اس کو بھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ اس کو سزا ہوگی بلکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی سفارش اس کے کام آ جائے گی کوئی نہ کوئی وکیل اس کو بچا لے گا ۔۔جب تک آپ کسی کو اس کے جرم کی سزا نہیں دیں گے تب تک جرم ختم نہیں ہو گا اور جرم کی سزا ایک ہونی چاہیے چاہے وہ غریب ہو یا امیر تبھی کچھ بہتری ہو سکتی ہے عدالت کو چاہیے کہ کیسوں کا جلد اور منصفانہ فیصلہ کرے۔۔۔ دوسرا تعلیم پر توجہ دینی چاہیے اور سرکاری سکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانا چاہیے اور بہترین ٹیچر کا انتخاب کرنا چاہیے اور تعلیم کو فری کرنا چاہیے اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگوں کا سرکاری اسکولوں کی کی بجائے پرائیویٹ سکولوں کی طرف رجہان زیادہ ہے حالانکہ پرائیویٹ اسکول کی فیس بھی زیادہ ہوتی ہے مگر عوام یہ دیکھتی ہے کہ یہاں پر ہمارے بچے کو وہ سکون میسر ہے جو سرکاری سکولوں میں نہیں اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔تیسرا لوگوں کو میرٹ پر نوکریاں فراہم کرنا ہوگی یہاں لوگ میٹرک کے بعد اس لئے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں کہ کون سا نوکری ملنی ہے
۔مل ۔فیکٹری اور صنعتوں کو فروغ دیں تا کہ ملک کی معشیت بہتر ہو چو تھا مہنگائی کو کنٹرول کرنا غریب بیچارہ گھر چلانے کیلیے کتنے پاپڑ بھیلتا ہے مگر مہنگائی اسکو سکون نہیں لینے دیتی وہ جیسے تیسے گھر کے کھانے کاسامان پورا کرتا ہے تو بجلی گیس پانی کے بل اسکی کمر توڑ دیتے ہیں بل پورے کرتا ہے تو بیماری سے لڑنا پڑتا ہے بچوں کے کپڑے جوتے اور بہت سی چیزیں ان کے لیے اور پریشانی بنتی ہیں اکثر گھروں میں بیٹیاں شادی کے بغیر ہی زندگی گزار دیتی ہیں اور بھی بہت سے مسائل ہیں جو آ ڑے آ جاتے ہیں بہرحال یہ وہ مسائل ہیں جو پاکستان میں عام ہیں اور 22 کروڑ عوام میں سے مجھے لگتا ہے کہ دس کروڑ عوام اس کا حل بتا دیں گے کہ ملک کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے مگر ہماری عوام کے وہ نمائندے جسے عوام اقتدار میں لے کر آتی ہے وہ پاکستان کی ترقی دیکھنا ہی نہیں چاہتے ان کو اس بات کی یا تو فکر نہیں یا وہ ملک کو اپنی سیاست پر ہی چلانا چاہتے ہیں جس ملک کا سیاست دان اور بزنس میں اپنے ساتھ وفادار نہ ہو وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے ترقی کے لیے مثبت سوچ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے بڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں میں پرائم منسٹر جناب عمران خان صاحب سے مودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ ایسے فیصلے کریں جس سے ملک آگے بڑھ سکے آپ ایک ایسی کمیٹی بنائیں جو روزانہ کی بنیاد پر عوامی مسائل کو فون کال کے ذریعے سن سکیں اور ان کا فوری حل نکالیں اور ایسی ایسی جگہوں پر کرپشن ہورہی ہے کہ لوگ بتانے سے ڈرتے ہیں کیوں کہ ان کو اپنا ڈر ہوتا ہے نیچے سے لے کر اوپر تک سارے کرپٹ لوگ ہیں اگر آپ ان لوگوں کو سیفٹی فراہم کریں تو بہت سے راز فاش کرنے میں وہ آپ کی مدد کریں گے جو لوگ 74 سالوں سے ملک کو لوٹ کر اپنی جیبوں میں خزانے بھر رہے ہیں ہمارا ملک گیس چور بجلی چور اور پتہ نہیں کن کن کن چوروں سے بھرا پڑا ہے بس ان پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے میں امید کرتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا اقدام ہو جائے تو ملک کی ترقی میں بہت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ورنہ تو لوگ آتے رہیں گے لوٹتے رہیں گے اور ملک پاکستان کوبدنام کرتے رہیں گے

منیر انجم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
منیر انجم کا ایک اردو کالم