اُس نے دیکھا تو اک ہوا تھا میں
اور بہت تیز چل رہا تھا میں
اُس کی آنکھوں کو پار کرتے ہوئے
ایک دن ڈوبنے لگا تھا میں
کشتیاں جانتی نہیں تھیں مجھے
اور دریا کو جانتا تھا میں
چار اطراف تھے بپا مجھ پر
اور سمتوں میں گھِر گیا تھا میں
اُن میں آنگن سِرے سے تھے ہی نہیں
جن مکانوں میں رہ رہا تھا میں
روح کو روح کی طلب تھی مگر
اک بدن میں گھِرا ہوا تھا میں
صاف ستھری سیاہ تختی پر
روشنی سے لکھا گیا تھا میں
وہ تماشہ بھی خوب تھا جس میں
آدمی سا بنا ہوا تھا میں
سید کامی شاہ