اشک در اشک بھرے آنکھ سنبھلنے لگی ہے
خواب کے کھیل سے اب یاد بہلنے لگی ہے
تو سمندر ہے اگر تیرا کنارہ میں ہوں
موج ہر سمت سے اب ضبط میں ڈھلنے لگی ہے
شہر کے شیشہ گرو ریت ہی تقسیم کرو
اب کے صحرا کی بھی تقدیر بدلنے لگی ہے
پھر کسی دھیان سے عرفان میں اترے ہونگے
روشنی جسم کے اندر سے نکلنے لگی ہے
ان ندی نالوں کی تحقیر نہ کرنا ہرگز
ایک امید کے اب آنکھ میں پلنے لگی ہے
ہجر کی دھوپ نے گھیرا ہے کئی بار ھمیں
حوصلہ مند کے پروائی بھی چلنے لگی ہے
تیرے چہرے پہ بھی دیکھے ہیں بدلتے منظر
اپنے اطراف بھی اک شام سی ڈھلنے لگی ہے
آس کی سبز رتیں آ کے ٹھر جائیں کہیں
ایک قندیل ہواؤں میں بھی جلنے لگی ہے
آسناتھ کنول