رُکے رُکے سے قدم رُک کے بار بار چلے
قرار دے کے ترے دَر سے بے قرار چلے
اُٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر
چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اُتار چلے
نہ جانے کون سے مٹی وطن کی مٹی تھی
نظر میں ، دھُول، جگر میں لئے غبار چلے
سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے
سو رات رات کی یہ زندگی گزار چلے
ملی ہے شمع سے یہ رسمِ عاشقی ہم کو
گناہ ہاتھ پہ لے کر گناہ گار چلے
گلزار