سوت پر سوت اور جلاپا
سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ
میں جانتا تھا کہ اس نے جو پوسٹ لگائی اس کا مخاطب میں ہوں۔ وہ میری دیوانی تھی اور مجھ سے منسوب بھی لیکن کئی سال کی ہم رکابی کے باوجود میں اس کے دل میں مستور راز جاننے میں ناکام رہا تھا۔ اب اس تصویر میں وہ غیر کی بغل میں گھسی نظر آ رہی تھی۔
میں اس سے تمام ناتے توڑ چکا تھا۔
وہ انتہائی تیز لڑکی تھی۔ جو تصویر اس نے انسٹا گرام پر لگائی اس کا کیپشن صریحاً مجھ پر طنز تھا ”اندھے بھنورے کی بجائے کسی چھلیے کے ساتھ اچھلنا کودنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ حمزہ پہاڑی راستوں میں بہنے والے دریا کی ایک چھل ہے۔ اس دریا کی جو شروع سے آخر تک دریا ہی رہتا ہے۔ وہ لافانی و جاودانی ہوتا ہے اور اس کا پیار بھی۔ کسی وقت، جگہ یا موسم میں دھرتی کے ساتھ اپنا پیار نہیں بدلتا۔ خوشی میں اس کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتا ہے۔ جب بگڑتا ہے تو راستہ نہیں بدلتا اس کے اوپر بکھر جاتا ہے۔ اس کا اتھلنا دھرتی کی کوکھ کو بارآور کر دیتا ہے۔“
وہ اپنی نئی دریافت کے ساتھ دم بازی کر رہی تھی تو مجھے بھی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
اس نے فیس بک پروفائل میں اپنا ریلیشن شپ سٹیٹس تبدیل کیا تو مجھے میرے دوستوں نے عجیب عجیب نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں بھی تصویریں پوسٹ کیا کروں گا۔
اس کی یاد کو جھٹک کر کشمیر کی حسین وادیوں میں جھرنوں کے درمیان سے گزرتی شام کے حسن کی تصویریں انسٹاگرام پر لگانا شروع کر دیں۔ نائلہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی پوسٹ کر دی۔ نیچے کیپشن لگایا ”میری ہم سفر: جس سے ملنے کے بعد مجھے گدرائے سڈول شانے اور گول بھاری سریں اچھے لگنے لگے ہیں۔ فربہ اندام عورت روئی کے گالے کی طرح نرم و گداز ہوتی ہے۔
نائلہ سے میرا تعارف گرچہ بہت پہلے کا تھا لیکن اس کی دھوکا دہی کے بعد ہم مزید قریب آ گئے۔ دوسری تصویر لگا کر نیچے لکھا ”بن بازو کی شرٹ میں ساعد سیمیں کی کافوری شمعوں کی تابانی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔“
وہ بہت بدتمیز عورت تھی۔ روزانہ کوئی نہ کوئی چوٹ لگا دیتی۔ ایک تصویر لگائی اور لکھا ”وہ اپنے دفتر کی اس لڑکی پر فریفتہ ہوا جس کے معاشقے زبان زد عام تھے، مجھے چھیل چھبیلا جوان حمزہ مل گیا ہے۔ وہ لڑکا جس میں حسن، محبت اور دلداری کی تکون مجسم ہو کر عمودی چٹان بن گئی ہے۔“
ساتھ ہی لکھا ”حمزہ مجھے شروع دن سے ہی کہہ رہا ہے کہ کیا تمہیں مجھ پر اعتماد نہیں؟ اس کا شک درست ہے۔ ایک مرتبہ دھوکا کھانے کے بعد میرا دل کہیں نہیں ٹکتا۔ مردوں سے بات کرتے ہی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ
’I am in love.‘ ”
٭٭٭
پھر کئی دن تک اس کی فیس بک اور انسٹا گرام خاموش ہو گئے۔ کئی مرتبہ میں سوچتا کہ جب اسے چھوڑ چکا ہوں، وہ کسی اور کے ساتھ محبت کی پینگیں چڑھا رہی ہے تو میں اس کی وال بار بار کیوں دیکھتا ہوں؟ پھر سوچتا کہ کہیں وہ کسی کے جال میں پھنس کر اپنا نقصان نہ کر بیٹھے۔
وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ایک رات جلی کٹی پوسٹ دیکھی۔ ”یہ مرد لوگ بہت برے ہوتے ہیں۔ حمزہ بھی بے وفا نکلا۔ ایک دو دن تو پژمردہ سی گھر میں پڑی رہی پھر سوچا کہ ہمارے ملک میں جہاں مرد بھوکے گدھوں کی طرح عورت کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں وہاں لڑکیوں کو نا امید ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ کسی کو ایک جھلک کروا دو، کتے کی طرح دم ہلاتا چلا آئے گا۔“
ساتھ ہی ظہیر کی باہوں میں جھولتے ہوئے اپنی تصویر لگا دی۔
ظہیر تو حمزہ سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ نوجوان مضبوط اور ورزشی جسم کا مالک۔ ایک اور تصویر میں وہ اپنا ہاتھ اس کی ننگی چھاتی پر رگڑتے ہوئے بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔ نیچے لکھا تھا ”اس سل پر چاہے مونگ دل لو۔“ وہ دو دھاری تلوار چلا رہی تھی۔ اس کی شرارتی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ نگاہیں جہاں پر ہیں نشانہ وہ نہیں۔
کچھ دن کے بعد ایک لمبا نوٹ لکھا
”تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ایک جیسے کپڑے پہننے والے، ایک جیسی پسند کے مالک۔ ظاہری حسن پر مر مٹنے والے۔ لالچی، ابن الوقت، جھوٹوں کے امام، خیالی دنیا میں بسنے والے۔ رنگ روپ پر مرنے والے، عورت کے دل میں جھانکتے ہی نہیں۔ سمجھدار اور بھلی عورت کی انہیں پہچان نہیں۔ غریق جلوہ، صاحب جلوہ کی تجلی کے شناسا ہی نہیں۔ میں نے بھی انہیں بے وقوف بنانے کا سوچ لیا ہے۔ آج ظہیر مجھے پروپوز کرنے آ رہا ہے۔ اس کی بھی وہی پسند ہے۔ اس نے مجھے اسی ہوٹل میں بلایا ہے جہاں اس لایعنی عمل سے میں پہلے بھی گزر چکی ہوں۔ شام آٹھ بجے۔“
اس کی یہ جرات! وہ انتہائی بھونڈے طریقے سے میرا ٹھٹھا اڑا رہی تھی۔ اسے بلاک کر دیا۔ دل مطمئن نہ ہوا۔ میں مستقلاً جان چھڑا لینا چاہتا تھا۔
شام آٹھ بجے ہوٹل پہنچ گیا۔ وہ اسی ٹیبل پر بیٹھی تھی۔
غصے سے پوچھا ”تمہارا منگیتر کہاں ہے؟“
بڑی بے رخی سے ہاتھ اٹھا کر میری طرف اشارہ کر دیا۔
میرا تن بھڑک کر لال بھبوکا ہو گیا۔ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔
سید محمد زاہد