قلم سچّائیاں لکھتے ہوئے اب خون روتا ہے
مگر یہ داستانِ ظلم پوری ہی نہیں ہوتی
مرے مولا ،
مری آنکھوں کو کب تک بے حسی کی نیند کے قرضے چکانے ہیں ۔
شکستہُ بازوؤں کو اور کتنے بے کفن لاشے اٹھانے ہیں ،
دھواں چیخیں لہو آہیں کراہیں زخم ویرانی ۔
شنیدہ اور دیدہ ہیں یہ سب منظر پرانے ہیں
خدائے لم یزل اے وارث لوح قلم
احساس زخمی ہے
مرے حرفوں میں گریہ ہے
مرے ہاتھوں میں لرزش ہے
مرے سہمے ہوئے مظلوم اور معتوب حرفوں کو ،
دعائے نور کا صدقہ عطا کرکے
اندھیرے سے رہائی دے ،
میں خوں سے کب تلک لکھّوں
قلم کو روشنائی دے
ڈاکٹر طارق قمر