- Advertisement -

نیل یکشنی

ایک افسانہ از دیوندر ستیارتھی

نیل یکشنی
ایک

اس بارپھر ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ چلو یونان، چلو یونان!

فادر ٹائم نے یایاور کو سر سے پان59و تک دیکھا ’’کہانی تو کہیں سے بھی شروع ہوسکتی ہے۔‘‘ آچاریہ مہاشویتم بولے۔

یایاور کے اغل بغل میں مون سون اور مِس فوک لور۔

کتھا دوار پر کُھدے ان کے پیدائشی نام۔

وِینس اور اینٹگنی۔

ڈاکٹر سُنیتی کمار چٹرجی کے آشیرواد سے مِس فوک لور یونیورسٹی میں گریک بھاشا وِبھاگ کی اونچی کرسی پر جابیٹھی۔

زندہ باد

او صنم، او ہم صنم، او ہم صنم!

ہم نے ان کی راہ دیکھی۔ اب کاہے کا غم، او ہم صنم!

مس فوک لور کی سہیلی مِس مون سون — وِشو سندری۔ وہ شری لنکا کے مہاکوی کی تعریف کے پل باندھتی رہی۔

گُل ہما بولی ’’اِٹ از آل گریک فارمی! میرے لیے یہ سب کچھ گورکھ دھندہ ہے!‘‘

پانڈولپی کی آواز —او صنم، او ہم صنم، او ہم صنم!

کتھادوار پر کھدی یا یاور کی کویتا —

پُل کنجری کا اندھا ہاتھی، بھیس بدل کر آپہنچا

بدمستی کے عالم میں بھی، سنبھل سنبھل کر آپہنچا

ہاتھی ہو یا ہاتھی والا، اِک چکر میں رہتا ہے

لوک یان کا ہاتھی والا پیدل چل کر آپہنچا

مہایان، ہین یان، وجرّیان اور اب اسی سلسلے میں لوک یان۔

الوداع کہنے سے پہلے سُنیتی بابو فوک لور کے لیے ’’لوک یان‘‘ شبد دے گئے۔ اب یہ چلے گا جیسے گھنگھرو کی جھنکار۔

آچاریہ مہاشویتم بولے۔

کشمیر سے کنیا کماری تک ہمارا کتھا گھاٹ۔‘‘

’’موسموں کی سرائیں بہتر ہیں، گھر کے اندر اُداس رہنے سے۔‘‘ ڈاکٹر ابوطالب گنگناتے رہے۔

اجی بال کی کھال کون اُتارتا ہے؟

محفل میں ایک سے ایک بڑھ کر، کیا راجہ ٹھاکر، کیا اگھوری۔

امرت دِن مان کی پسند نادان کا کلام۔

’’وفا کے شہر میں ٹوٹی ہے کوئی رسم قدیم

کہ اِک فقیر کا کتّا اُداس بیٹھا ہے

چندر دیپ کی کہانی ’’گُڑیا گھر‘‘ جس میں مِس فوک لور بھی آگئی، مِس مون سون بھی اور گُل ہما بھی۔

چندردیپ کی پتنی چمپا — سانولی، چھریری، مِرگ نینی، سبھاشنی۔ اُس کی دو بیٹیاں — بڑی بِندو، چھوٹی اِندو۔ ماں بیٹیاں۔ گڑیا گھر کی گڑیاں۔

’’گھوڑوں کے نعل لگتے دیکھ کر گدھوں نے بھی پیر آگے کردیے۔‘‘ گڑیاگھر کی اُٹھان۔

جیسے خود کہانی یا یاور کو بلاتی ہو۔

کتھا دوار پر کُھدی یا یاور کی کویتا —

سُنی سُنائی کہتا رہتا۔ کاٹ کاٹ کے لکھتا رہتا

چیپی چیپی نئی لکھاوٹ۔ کاغذ بن گیا گتّا

رچنا تو انوبھو کی بات نا ویتن نا بھتّہ

سوکھی روٹی ایک پیاز۔ کن رس ہے البتّہ!

کون جانے کتنی بار یایاور شانتی نکیتن گیا اور گُرودیو کا آشیرواد پراپت کیا۔

کشمیر سے کنیا کماری تک چپہ چپہ چھان مارا ۔

ڈرائنگ روم میں گُرودیو کے ساتھ یایاور کی تصویر۔ گرودیو کی داڑھی سفید، یایاور کی کالی۔ نصف صدی کا قِصّہ القصّہ۔

یہی وہ تصویر تھی جسے دیکھ کر منٹو نے یایاور کو ’’فراڈ‘‘ کہہ ڈالا تھا۔ اور یایاور مسکرادیاتھا۔

اب چالیس برس بعد دلّی کے ایک سیمینار میں یایاور سے ملاقات ہونے پر فیض احمد فیض بولے۔’’ارے یہ تُو ہے؟ تُو ابھی زندہ ہے!‘‘ اور دونوں دوست گلے مل گئے۔

تعارف اور اجنبیت کے بیچ — پیدائش، خاندان، بچپن۔

جوانی گئی، بڑھاپا آیا۔ کیسا سوانگ رچایا؟

اوصنم، او ہم صنم، او ہم صنم!

نصف صدی سے پہلے کی یایاور کی ایک کویتا —

’’کلکتے کے بازاروں میں ریشم اب بھی مل سکتا ہے!‘‘

یایاور کی پانڈولِپی کویتا، کہانی اور ناٹک کا سنگم ۔ کتھا شیش اور شیش کتھا کے بیچ کا فاصلہ۔

’’گڑیا گھر ‘‘ — چندردیپ کی کہانی۔ گڑیا گھر میں یایاور۔ جنم جنم کا ساتھ۔ ہاتھ میں ہاتھ۔

کاپی رائٹ بھارت ماتا کا‘‘ — ایک پرانی یاد۔لنکا یاترا سے یایاور کی واپسی پر دلّی میں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائرکٹر جنرل احمدشاہ بخاری (پطرس) نے کہا۔

’’اس کنٹریکٹ پر دستخط کردیجیے۔ رائلٹی آپ کو ملتی رہے گی۔‘‘

یایاور بولا۔

’’میں دستخط کیسے کرسکتا ہوں؟‘‘

’’کیوں، ایسی کیا بات ہے؟ بخاری صاحب نے پوچھا۔

’’کاپی رائٹ بھارت ماتا کا۔‘‘ یایاور مُسکرایا، کھٹی، میٹھی یادوں کی برات۔

اوصنم، او ہم صنم، او ہم صنم!

دو

کہانی کا مزا نہ تو سننے میں کم ہوا، نہ سنانے میں، پانڈولِپی میں گڑیا گھر کا بکھان۔

یہی احساس کہ نئے راستے کھلتے گئے اور ننھے ننھے پیروں کی آہٹ سانس لینے کی آواز میں گھلتی رہی۔

پانڈولپی کا ایک ادھیائے — ’’سکندر۔‘‘

’’سپنے میں ملا سکندر۔ دونوں ہاتھ کٹے ہوئے‘‘

’’اس کے سینے میں اُتر گئی۔ اس کی تلوار‘‘

’’سر پر مرے ہوئے گھوڑے کا تاج‘‘

گزرا ہوا زمانہ بڑھتا ہوا ورتمان تک چلا آیا — جیسے روتا ہوا بچّہ ماں کی چھاتی پر منھ مارتا رہا۔

محفل کافی ہاؤس کی

ریشم، ریشم، ریشم۔ اغل بغل ریشم ہی ریشم۔

ریشم چین سے آیا، کہانی یونان سے

کہانی نہیں، مِس فوک لور۔ گڑیا یونان کی۔

مس مون سون بھی ’’گریک ڈال۔‘‘

’’محرابوں والی بارہ دری ‘‘ — یادوں کا روزنامچہ ایک روز مِس فوک لور کی کتاب چھپے گی۔

اپنے آپ سے ملاقات کرنے کی کوشش کے دوران گرہستی کی ’’نون تیل لکڑی‘‘ یایاور کے ساتھ ہی یاترا میں بھی۔

جانے کِس کِس پہاڑ پر گیا، کس کس جنگل سے گُزرا۔

ہیون سانگ جس یُگ میں آیا تھا بھارت میں، تب کہاں تھا یایاور؟ کتھا شیش میں اُلجھا ہوا یا شیش کتھا میں۔

جب ابنِ بطوطہ آیا بھارت میں، تب کہاں تھا یایاور؟

کسی اندھیرے مندر میں دیپ بن کر جل رہا ہوگا۔

گڑیا گھر میں کیسے سمایا اتنا بڑا اِتہاس؟ چین کی دیوار بھی آگئی گڑیا گھر میں ہم قربان۔

واہ رے سابق مدیر! زندہ باد

ادارت کے آٹھ سال۔

میگزین کا نام —— ’’دیش کال۔‘‘

سُن لو، من، سُن لو۔ ہوسکے تو کوئی سپنا بُن لو۔

چھوڑو، اب یہ قصّہ چھوڑو۔ قصّہ القصّہ چھوڑو، چھوڑو۔

آدی تال، تین تال، جھپ تال۔

آل دال، بیتال

کچّے کانوں میں پریم نویدن۔

سُن لو، من، سُن لو۔

ہونا نہ ہونا ایک سمان۔

بنارس یونیورسٹی میں ایم اے کے نصاب میں رکھی گئی کتاب میں یایاور کی تصویر چھاپتے وقت نیچے لکھ دیا —

’’ایک آریہ!‘‘

کتنا عجیب مذاق کیا تھا جے چندوِدیا النکارنے۔

واہ رے واہ ہم!

’’اوصنم، اوہم صنم، اوصنم!‘‘

نادان بھگت کوئی اپنی، اے پاپی پاپ میں چین کہا؟ /جب پاپ کی گٹھری سیس دھری، اب سیس پکڑ/ کیا رووت ہے!‘‘

وقت کب رُک پایا؟

کیا ٹھمری، کیا دادرا، کیا ٹپہ۔

کبھی موہن جودڑو، کبھی ہڑپّا!

’’جس پر نظر جمائی، وہ نقشہ بدل گیا! ’’گُل ہما گنگناتی رہی۔

بار بار کاندھے جھٹکے۔

کتنا کچھ یاد آگیا۔

رات بھر جاگ کر دیکھتا رہا یایاور۔

لوک یان کا پریم نویدن جیتے جی نہیں مٹ سکتا۔ سُنی اَن سُنی کیسے کردیں؟ ’’کیسے کردیں دیکھی اَن دیکھی؟

شاید آج پھر نئی تُک بندی کرڈالی۔

آئینے کے سامنے مُنھ بنایا۔

لکھتے لکھتے سرگوشی کا انداز اپنایا۔

جانے کتنی بار زمین اُس کے پیروں تلے سے کھِسک گئی۔ اور اس سے کچھ کہتے نہ بن پڑا۔

پورا نام — یایاور لو ک یان۔

اس کا یہی تکیہ کلام —

’’ارے بھئی، ٹوپی کا بھی مشورہ لے لو۔‘‘

جانے کس کس نے بُرا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی۔

ہوا کا رُخ دیکھ کر سٹپٹایا یایاور۔ اور کسی کسی محفل میں اُسے ہاتھو ں ہاتھ لیا گیا۔

یایاور کے ڈرائنگ روم میں ریڈیو کے پاس۔

’’الگوزہ بجاتی اپسرا۔‘‘

اشٹ دھات کی پرتیما۔ شری لنکا کے مورتی کار، شری رنگم ڈی سوزا کا چمتکار۔

اپسرا کی شکل — ہوبہو گل ہما کی سی۔

تین

مِس مون سون کی پسند یایاور کی پانڈولپی میں پہلونٹی کی بِٹیا کویتا کی کہانی جو دکشن بھارت کے ایک اسپتال میں پیدا ہوئی، رات کے دس بجے، پت جھڑ کے خوشگوار موسم میں۔

دلّی یونیورسٹی سے ہندی میں ایم اے کیا۔

دلّی میں ہی بیاہی گئی اور پھر دلّی کے ہولی فیملی اسپتال میں ایک بچی کو جنم دے کر چل بسی۔

بچی کے تین نام ——

سویٹی، کنچن، وپل جیوتسنا۔

کویتا سے چودہ برس چوٹی — الکا — الکا سے تین برس چھوٹی — پارول۔ دونوں کی شادی ہوگئی ۔

کویتا کی تصویر کے سامنے دونوں سرنگوں، بغل میں ان کی ماں۔

یایاور کی وہی دُھن—

’’اوری نیل یکشنی کویتا / اوری مُلت کیشنی کویتا‘‘

چار

جیسے سپنے میں چل رہا ہو کوئی۔ ہاتھ میں ہاتھ۔

ایک کسک ، ایک ٹِیس

کُھل کُھل کر، گھِرگھِر کر برسے جیسے کالا میگھ۔

اپنا لاہور ۔۔۔ اپنا نیلا گنبد ۔۔۔

زندہ باد

ایک جستجو، ایک دُھن، سچّی لگن!

یایاور لاہور میں پڑھتا تھا۔ ڈی اے وی کالج میں، جب ڈاکٹر اقبال نے اسے خودکشی سے بچایا۔

نیلا گنبد کے چوک سے جو نوجوان اسے ڈاکٹر اقبال کی کوٹھی پر لے گیا تھا، وہ تھا عاشق حسین بٹالوی۔

لاہور میں ودیارتھی سمیلن کے سبھا پتی بن کر آئے۔ گُردیوٹیگور (1935 میں) جب وہ ڈاکٹر اقبال سے ملنے گئے ان کے گھر۔

دونوں کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ گلے لگ کر ملے ڈاکٹر اقبال نے کہا۔

’’اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتا ہے

’’گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا‘‘

گرودیو بولے —

’’کھوکا ماں کے شودھا ئے ڈیکے / اے لیم آمی کوتھا تھیکے!‘‘

ارتھات مُنّا ماں کے پاس آکر پوچھتا ہے۔میں کہاں سے آیا ہوں؟‘‘

لاہور میں ہی چھپی یایاور کی کتاب ’’میں ہوں خانہ بدوش‘‘ (تقسیم سے سات برس پہلے)

دلّی میں چھپی یایاور کی کتاب ’’کتھا کہو، اروشی !‘‘ (تقسیم کے نو برس بعد)

اب آئی ’’نیل یکشنی۔‘‘

’’کتھا کہو اروشی!‘‘ ’’اور ’’نیل یکشنی‘‘ کے درمیان چوتھائی صدی کا وقفہ۔

ایک روز یایاور نے بیوی کو، جو اس کی ہم سفر رہی ’’لوک ماتا‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔

چائے کا پیالہ ٹکراتے ہوئے یایاور نے کہا۔

’’لوک ماتا! آج کسی فلم کی نہیں، ہماری شادی کی گولڈن جوبلی ہے۔ چائے کا یہ پیالہ گذشتہ پچاس برس کے نام۔‘‘

پانچ

کہاں مِلی نیل یکشنی؟

ریزرو بینک کے دروازے پر۔

مورتی کار رام کنکر شانتی نکیتن سے آیا۔

مورتیاں تو ہیں، مورتی کار اب نہیں رہا۔

پتھر کی وشال مورتی میں سیدھا کھڑا یکش گویا وِچتر مُدرا میں بینک کے سامنے سے گزرنے والوں پر طنز کرتا رہا۔

نیلے پتھّر کی وشال یکشنی، اپنے بھیتر جھانکتی سی کسی کھوئی چیز کے دھیان میں مگن۔

یکش ویسے ہی تھے جیسے کِنّر اور گندھر — وہ آریہ نہیں، آریہ مِتر تھے۔

لکشمی نارائن وشنو نے یکش راج کُبیر کو اپنا خزانچی بنایا تھا۔

بھارت سرکار کا ریزروبینک گویا وشنو کا خزانہ۔

ریزروبینک کا ڈائرکٹر — یکش راج کُبیر ۔ اسی لیے تو یکش یکشنی اس کے دوارپال۔

چھ

’’محرابوں والی بارہ دری‘‘ مس فوک لور کی کتاب۔

کتاب کا انتساب امرت دن مان کے نام۔

دیباچہ نگار — فادر ٹائم۔

سنسکرت ناٹک اور گریک ٹریجدی کے درمیان دوستی کا پُل۔

ہاتھ میں ہاتھ۔۔۔ آنکھ میں آنسو ۔۔۔ آنسو کا سمندر ۔۔۔

الگوزے پر راگ جوگیا

مس فوک لور یونیورسٹی میں گریک بھاشا وِبھاگ کی اونچی کرسی پر براجمان نہ ہوتی تو ’’اجنتابُک کارنر‘‘ کے مالک جدو بابو نے کتاب کے گیٹ اَپ پر روپیہ پانی کی طرح نہ بہایا ہوتا۔

چار سو صفحات۔ پُوری جلد کپڑے کی۔ گردپوش پر فوک لور کی تصویر، دائیں مس مون سون، بائیں گُل ہما۔

نیلے گرد پوش پر لیمی نیشن۔

راجہ ٹھاکر بولا۔ ’’اندھے کے ہاتھ بٹیر‘‘

گُل ہما نے کہا ’’پُستک نہیں کرسی چھپی۔‘‘

سات

کاغذ کے پیسے یایاور نے کیسے جُٹائے، یہ تو پانڈولپی کی آتما ہی جانتی ہوگی۔

پرکاشکوں کا سامراج اُسے ایک آنکھ نہ بھایا۔

سوچا مٹھائی بن جائے گی تو گھنٹے والے کی دُکان پر رکھ دیں گے۔ بِکری ہوتی رہے گی۔

دوستوں نے جب یہ سُنا کہ نیل یکشنی پریس میں چلی گئی اور اُنھیں یقین ہوگیا کہ اب کتاب چھپ جائے گی۔

بات کرتے وقت یایاور کا سر ہلتا رہتا۔ اُس کی تان یہیں ٹوٹتی کہ جاڑے کی شدت سے بچنے کے لیے سائبیریا کے سارس بھارت میں بھرت پور کی گھنا جھیل پر چلے آتے ہیں، جسے اب بھارت سرکار نے ’’پکشی وِہار‘‘ ’’نیشنل برڈ سینکچویری‘‘ کا نام دے دیا اور موسم بدل جانے پر واپس چلے جاتے ہیں۔

بات کرتے کرتے یایاور کبھی ہنس پڑتا، کبھی گمبھیر ہوجاتا اور کبھی گنگنانے لگتا۔

’’اوری نیل یکشنی کویتا / اوری مُکت کیشنی کویتا!‘‘

فادر ٹائم کے بار بار اصرار کرنے پر یایاور اُسے گیت کا بول سُناتا —

مور کُونجاں نوں آکھدے / تہاڈی رہندی نت تیاری

جاں مورو تہاڈا دیش کجبھڑا، یاں تہاڈی کسے نال یاری

نال مورو ساڈ ڈیس کجبھڑا ناں ساڈی کسے نال یاری

بچڑے چھوڑ مسافر ہوئیاں، ڈاہڈے رب نے جوگ کھلاری

(مور سارسوں سے کہتے ہیں کہ جب دیکھو تم سفر کے لیے تیار رہتے ہو۔ ارے سارسو، یا توتمھارا وطن بُرا ہے یا تم یہاں کسی کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔ سارسوں نے جواباً کہا۔ ’’نہ تو ہمارا وطن بُرا ہے اور نہ ہی ہم کسی کے عشق میں گرفتار ہوئے ہیں۔ لمبی اُڑان کا بس یہی کارن ہے کہ مالک نے ہمارا آب و دانہ اتنی دور دور پھیلا دیا ہے۔)

آٹھ

مِس فوک لور نے

بتایا کہ شری لنکا کے مورتی کار شری رنگم ڈیسوزا نے گُل ہما کو اپسرا کا ماڈل بنایاتھا۔ جب وہ یاترا پر وہاں گئی تھی۔

الگوزہ بجاتی اپسرا

مورتی کار نے یہ اشٹ دھات کی مورتی اپنے دیش کے مہا کوی سوم سندرم جے وردھن کو بھینٹ کردی۔

مہاکوی نے مورتی کلا کا یہ شاہکار مس مون سون کو ارپت کردیا۔

مس مون سون نے یہ مورتی گُل ہما کو دے ڈالی اور گل ہما نے یایاور کے ڈرائنگ روم میں سجا د ی یہ بیش قیمت مورتی۔

نو

فادرٹائم کا یہی اعتراض کہ یایاور کی پانڈولپی میں کہانی کا کہیں دور دور تک اَتہ پتہ نہیں۔

’’بھرت پور لٹ گیو رات بگیّن میں! آواز بے نظیر بیگم کی —

آچاریہ مہا شویتم کی وہی تان —

’’یایاور کی پانڈولپی سُنیتی بابو کا لوک یان‘‘

یایاور کو مِس مون سون کا انتظار۔ وہ آئے تو اسے تیسری وِشو یاترا پر اپنے ساتھ لے جائے۔

’’او صنم، اوہم صنم، او ہم صنم!‘‘

پانڈولپی کی پہچان — ہم امرت سنتان!

امرت دِنمان کے دماغ پر سوار فلم ڈائریکٹر گوڈار کا فرمان —

’’سینما از ٹروتھ ٹونٹی فور ٹائمز اے سیکنڈ‘‘ یعنی سینما کا ہر فریم ایک سیکنڈ میں چوبیس بار گھوم جاتا ہے۔ بھلے ہی ہنستا ہوا چہرہ سامنے آئے یا روتا ہوا۔

پہلے قدرے پاس سے دیکھو، پھر ذرا دور سے، پاس کی دوری بہت ضروری ہے!

مس فوک لور نے بھرت پور سے لوٹ کر اچانک یہ خبر سنائی کہ سائبیریا سے آئے ہزاروں سارس اب کے موسم بدل جانے پر بھی واپس نہیں گئے!
دیوندر ستیارتھی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از نیر مسعود