قسط وار ناول بہرام: پہلی قسط
ذیشان احمد ٹیپوؔ کا اچھوتا ناول
بہرام: پہلی قسط
بوسیدہ بستر پر کروٹیں بدلتے بالآخر جاڑے کی طویل رات گزر ہی گئی اور مؤذن کی پکار نے صبح کی آمد کا اعلان کر دیا.
ساتھ والی چارپائی پر سوئی ہوئی بوڑھی ثمینہ اذان کی آواز سن کر نماز کیلئے اٹھی تو اپنے اکلوتے اور لاڈلے بیٹے کو بیدار پایا.
کیا ہوا بیٹا، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟
ثمینہ نے ممتا بھرے لہجے میں پوچھا
"ٹھیک ہوں امی، نماز پڑھ کے آتا ہوں”
"جاؤ بیٹا اللہ تمہیں اپنے گھر کی زیارت نصیب کرے”
زوہیب آمین کہتا ہوا مسجد کی جانب چل پڑا
آج 10 دسمبر کا دن تھا یعنی زوہیب کے باپ اور ثمینہ کے شوہر نیاز احمد کی پندرہویں برسی، ثمینہ کو معلوم تھا کہ زیبی مرحوم باپ کے ایصال ثواب کیلئے تلاوت کلام پاک اور محلے کے بچوں میں ٹافیاں بانٹ کر باپ کی قبر پہ جائے گا.
10 دسمبر کا دن ثمینہ پہ ہمیشہ بھاری گزرتا تھا گویا دن کے بارہ گھنٹے صدیوں پہ محیط ہو گئے ہوں. ثمینہ کی آنکھ سے آنسو چھلکا اور ماضی کی یادوں کے دریچے کھل گئے.
صفدر مالی شہر کے پوش علاقے میں سیٹھ نذیر کی بڑی سی حویلی کے سرونٹ کوارٹر میں اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ رہتا تھا. سیٹھ نذیر کے دونوں بیٹوں نے باپ کا اربوں کا کاروبار سنبھال لیا تھا جس کے بعد سیٹھ صاحب پرسکون اور آزاد زندگی گزارنے کے علاوہ صفدر مالی کے ساتھ مل کر باغبانی کا شوق پورا کر رہے تھے. باپ دادا نے انتہائی کڑا وقت دیکھا تھا یہی وجہ تھی کہ سیٹھ صاحب اور ان کی اہلیہ زبیدہ بیگم اپنے ملازمین کے ساتھ انتہائی شفقت اور اپنائیت سے پیش آتے. گھر میں پکنے والا کھانا مالک اور ملازمین سب کیلئے یکساں ہوتا اور ہر خوشی کے موقع اور تہوار پر گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ ملازمین کو بھی نئے جوتے کپڑے مل جاتے.
موسم بدل رہا تھا بہار کی آمد آمد تھی. صفدر مالی گھر سے چند کلومیٹر دور واقع نرسری سے موسمی پھولوں کی پنیری لینے گیا ہوا تھا. سیٹھ نذیر اور زبیدہ بیگم لان میں بیٹھے براؤن سلائس اور بغیر چینی کی چائے سے طبیعت بہلا رہے تھے کہ اچانک لان ٹیبل پہ پڑے وائرلیس فون کی بیپ بجی. سیٹھ صاحب نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف گھبرائی ہوئی آواز کے ساتھ آپریٹر گلفام نے جیسے دھماکہ کر دیا ہو.
چائے کا کپ ہاتھ سے چھوٹ گیا اور آنکھوں میں وحشت پھیل گئی.
کیا ہوا نذیر؟؟؟
شوہر کی حالت دیکھ کر زبیدہ بیگم نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا
"قیامت ٹوٹ پڑی زبیدہ، قیامت”
شہر کے بڑے اسپتال میں مریضوں اور ان کے لواحقین کا ہمہ وقت رش رہتا تھا. ایمرجنسی کے سامنے ایدھی اور ریسکیو ایمبولینسوں کا تانتا بندھا رہتا.
ایسی ہی ایک ایمبولینس میں اسے انتہائی تشویشناک حالت میں لایا گیا. کپڑے اور جسم خون سے لت پت تھا. اسے لانے والوں نے بتایا کہ سڑک کراس کرتے ہوئے ایک تیز رفتار ٹرک نے اسے جا لیا اور وہ کسی فٹبال کی طرح اڑتا ہوا بیسیوں فٹ دور جا گرا.
ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر نے اسے فوراً آکسیجن لگائی اور ڈیوٹی نرس کو ضروری ہدایات دینے کے بعد مریض کا تفصیلی معائنہ کرنے لگا. ماہرانہ رائے کیلئے سرجن اور میڈیکل اسپیشلسٹ جبکہ قانونی کارروائی کیلئے پولیس کو ایمرجنسی میں کال کر لیا گیا.
اس کے چہرے کی زرد ہوتی رنگت اور آنکھوں کے سکوت نے ڈاکٹروں پہ واضح کر دیا کہ آنے والا انجان شخص زندگی کی تمام رنجشوں سے آزاد ہو چکا ہے.
لاوارث میت کی شناخت کیلئے جیبوں کی تلاشی لی گئی تو ایک ملازمت کارڈ برآمد ہوا جس کی پشت پر کارڈ جاری کرنے والے ادارے کا پتہ درج تھا.
ہفتے کا پہلا دن تھا اور موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے قدرے خوشگوار تھا. دفتر میں آج پھر کوئی اہم بزنس میٹنگ تھی جس کی وجہ سے کانفرنس روم کے انچارج محسن نے الیکٹریشن احتشام کو تمام کنیکشن چیک کروانے تھے. روم کے ونڈو اے سی کا پلگ جلا ہونے کی وجہ سے محسن نے احتشام کو پلگ لینے بازار بھیج دیا اور خود آفس کی ایکسچینج پہ دلاور اور گلفام کے پاس چلا گیا.
دلاور، گلفام اور محسن کی خوب جمتی تھی کیونکہ تینوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے تھا اور سینکڑوں میل دور اس شہر میں ان تینوں کا ایک دوسرے کے علاوہ کوئی نہیں تھا. یہی وجہ تھی کہ کہیں بھی جانا ہوتا یا کچھ کھانا پینا ہوتا تو تینوں اکٹھے ہوتے.
دلاور کی منگنی کی خوشی میں تینوں دوست آفس بلڈنگ کے قریب واقع پٹھان ہوٹل سے مٹن کڑاہی اور کابلی پلاؤ کا پروگرام بنا رہے تھے. ان کی دوستی میں سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ایک دوسرے کی خوشی یا غمی میں برابر کے شریک ہوتے اور مالی اخراجات بھی مل کر برداشت کرتے تاکہ کسی ایک پہ سارا بوجھ نہ پڑے.
گلفام نے آفس کے ٹی روم سے تینوں کیلئے چائے منگوالی اور محسن کے ساتھ مل کر دلاور کو منگیتر کے حوالے سے چھیڑنے لگا.
انسپکٹر شہباز اپنے آفس میں بیٹھا روزنامچہ دیکھ رہا تھا کہ پاس پڑے ہوئے سرکاری ٹیلی فون کی گھنٹی بجی
"السلام علیکم! انسپکٹر شہباز اسپیکنگ”
"وعلیکم السلام سر، میں گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے ریسیپشنسٹ عالیہ بات کر رہی ہوں”
دوسری طرف سے جواں سالہ خاتون کی پیشہ ورانہ آواز سنائی دی.
"جی فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟”
انسپکٹر شہباز اپنی خوش اخلاقی کے باعث پورے ایریا میں مشہور تھا.
"سر ہمارے پاس ٹریفک حادثے کا شکار ہونے والے ایک مریض کو انتہائی تشویشناک حالت میں لایا گیا ہے، روٹین کی قانونی کارروائی کیلئے آپ کو زحمت دی ہے تاکہ اسپتال انتظامیہ کیلئے کوئی مسئلہ نہ بنے”
ریسیپشنسٹ نے مدعا بیان کیا تو انسپکٹر شہباز ایک کانسٹیبل کے ہمراہ اسپتال کیلئے روانہ ہو گیا.
مریض اب میت میں بدل چکا تھا اور اس کے ساتھ کوئی رشتہ دار یا جاننے والا موجود نہ تھا. انسپکٹر نے تلاشی لی تو جیب سے ملازمتی کارڈ برآمد ہوا جس کی پشت پر شبیر انڈسٹریز کا پتہ اور فون نمبر درج تھا.
انسپکٹر نے اسپتال کا فون استعمال کرتے ہوئے شبیر انڈسٹریز کا نمر ڈائل کیا تو دوسری طرف سے پہلی ہی بیل پہ فون اٹھا لیا گیا.
"السلام عليكم! شبیر انڈسٹریز سے آپریٹر گلفام بات کر رہا ہوں. فرمائیے، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟
آپریٹر نے شائستہ انداز میں اپنا تعارف کروایا تو انسپکٹر نے اسے تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور میت کی وصولی و دیگر کاروائی کیلئے چند ہدایات دینے کے بعد کانسٹیبل کو اسپتال چھوڑ کر خود پولیس اسٹیشن واپس چلا گیا.
گلفام کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور آواز اندر ہی کہیں دب گئی تھی. دلاور نے فوراً کولر سے پانی کا گلاس بھر کر گلفام کے منہ سے لگایا لیکن گلفام بمشکل دو گھونٹ ہی پی سکا.
اس کی آنکھوں میں تیرنے والی نمی نے دلاور اور محسن دونوں کو پریشان کر دیا.
محسن نے گلفام کی کمر سہلاتے ہوئے پیار سے پوچھا کہ کس کا فون تھا اور کیا کہہ رہا تھا. جواب میں گلفام نے ٹیلیفون پہ ہونے والی ساری بات دونوں دوستوں کو بتا دی.
محسن اور دلاور کو بھی اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا. یہ اطلاع فوری طور پر سیٹھ نذیر کو پہنچانا ضروری تھی لیکن گلفام کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ سیٹھ صاحب سے کیسے بات کرے.
بالآخر اپنی تمام تر توانائی جمع کر کے گلفام نے سیٹھ نذیر پیلس کا نمبر ملا دیا. دوسری طرف سے ہاؤس اٹینڈنٹ رشید نے فون اٹھایا تو گلفام نے ضروری اطلاع کی غرض سے سیٹھ نذیر صاحب کے پاس کال ٹرانسفر کرنے کا کہا.
ہیلو..!
چند سیکنڈ بعد سیٹھ صاحب کی آواز سنائی
"السلام علیکم سر! آپریٹر گلفام بات کر رہا ہوں”
گلفام نے مؤدبانہ انداز میں تعارف کروایا، اس کی آواز میں لرزش نمایاں تھی.
"جی بیٹا جی! خیریت سے فون کیا ہے؟”
سیٹھ صاحب نے پدرانہ شفقت بھرے لہجے میں پوچھا تو گلفام کی آواز بھرا گئی.
"سر پولیس اسٹیشن سے اطلاع آئی ہے”
جاری ہے………
ذیشان احمد ٹیپوؔ
عمدہ تحریر ۔اگلی قسط کا اِنتظار ہے
https://salamurdu.com/behram-2nd-qist.html