اسے آنکھوں کا نور کہتے ہیں
اور دل کا سرور کہتے ہیں
اس کے مسکن کو ہم کوئی فردوس
اور اسے ایک حور کہتے ہیں
وہ بلاتے ہیں اپنے پاس مگر
اور جاوء تو دور دور کہتے ہیں
جو نہیں چاہتا کوئی سننا
ہم وہ باتیں ضرور کہتے ہیں
سب لگاتے ہیں عشق پر الزام
حسن کو بے قصور کہتے ہیں
ایک دن خاک میں پہنچتا ہے
ہر سرِ پر غرور کہتے ہیں
یاد رہتا ہے سننے والے کو
آپ جو کچھ حضور کہتے ہیں
ہوش میں ہم جو کہہ نہیں سکتے
ہو کے نشے میں چور کہتے ہیں
اپنے انور شعور کو اکثر
ہم سخنور شعور کہتے ہیں