عزت نہیں ہے دل کی کچھ اس دلربا کے پاس
رہتی ہے آرسی ہی دھری خودنما کے پاس
پہروں شبوں کو غم میں ترے جاگتے رہے
ہو آہنیں جگر سو کرے بے وفا کے پاس
راہ و روش رکھیں ہیں جدا دردمند عشق
زنہار یہ کھڑے نہیں ہوتے دوا کے پاس
کیا جانے قدر غنچۂ دل باغباں پسر
ہوتی گلابی ایسی کسو میرزا کے پاس
جو دیر سے حرم کو گئے سو وہیں موئے
آتا نہیں ہے جاکے کوئی پھر خدا کے پاس
کیا جانیے کہ کہتے ہیں کس کو یگانگی
بیگانے ہی سے ہم رہے اس آشنا کے پاس
میر اس دل گرفتہ کی یاں تو ملی نہ داد
عقدہ یہ لے کے جائوں گا مشکل کشا کے پاس
میر تقی میر