نقش فریادی ہے کس کی
ایک اردو غزل از مرزا غالب
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بس کہ ہوں غالب! اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
تشریح
پہلا شعر
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کاغالب نے اس شعر میں زندگی کی بے ثباتی کا تذکرہ کیا ہے۔ ہر پیکر تصویر سے مراد تمام موجودات سے ہے اور یہ ساری چیزیں فنا ہونے والی ہیں۔اب جب یہ موجودات کا عالم ہے تو نقش ہستی کا اپنا کاغذی لباس یعنی بے ثباتی پر فریادی ہونا فطری ہے۔پس غالب کہتے ہیں کہ یہ کس بیداد تحریر کے نقش ہیں جو فریاد لیے ہوئے ہیں اور جن کے لباس کاغذی ہیں۔ایک روایت ہے کہ ایران میں کسی زمانے میں فریاد کرنے والا کاغذی لباس پہن کر دربار میں حکمران کے سامنے جاتا تھا تاکہ وہ سینکڑوں میں پہچانا جا سکے کہ یہ کوئی مظلوم ہے اور فریاد لے کر آیا ہے۔
دوسرا شعر
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
کاوِ کاوِ کے معنی کاوش وکاہش کے ہوتے ہیں۔لفطی تکرار نے شعر میں حسن پیدا کر دیا ہے اور جُستُجو کے معنی پیدا کر دیے ہیں۔اب شاعر کہتا ہے کہ جدائی کی رات کس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے یہ مجھ سے مت پوچھو کہ فرقت کی رات کاٹنا،اس کا صبح کرنا اتنا ہی مشکل اور دشوار ہوتا ہے،جتنا دشوار فراط کے لیے پہاڑ کاٹ کر شیریں(اس کی محبوبہ) کے محل تک نہر لانا تھا۔شاعر نے خود کو کوہ کن اور شب ہجر کی سختیوں کو پہاڑ کاٹنے اور نہر لانے سے تشبیہ دی ہے۔
تیسرا شعر
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
شاعر محبت میں جان دینے کو شہادت قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے اندر شہادت کا جذبہ اتنا زیادہ ہے اور اس کی کشش کا یہ عالم ہے کہ تلوار کے سینے سے اس کا دم یعنی دھار بھی باہر آگئی ہے کہ اس کا دم سینے سے باہر نکلا پڑتا ہے۔حسن تعلیل ہے کہ تلوار کی دھار تو ویسے ہی باہر ہوتی ہے۔مگر شاعر کوئی دوسرا شاعرانہ سبب بتاتا ہے۔
چوتھا شعر
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
شاعر کہتا ہے کہ ہمارے اشعار عنقا صفت ہیں اور یہ دام شنیدن میں نہیں آ سکتے۔مطلب ہے کہ عقل کتنی ہی سمجھنے کی کوشش کیوں نہ کر لے تو وہ ہمارے مفہوم نہیں پا سکتی۔
پانچواں شعر
بس کہ ہوں غالب! اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
شاعر کہتا ہے کہ میں زنجیر میں ایسا بے قرار ہوں کہ دل کی گرمی سے میرے پیروں کی زنجیروں کے حلقے جلے ہوئے بالوں کی طرح کمزور ہو گئے ہیں۔گویا میری بے قراری کے آگے ان زنجیروں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
بشکریہ:
اردو نوٹس ڈاٹ کام