نظر نہ آئے تو کیا وہ مرے قیاس میں ہے
وہ ایک جھوٹ جو سچائی کے لباس میں ہے
عمل سے میرے خیالوں کا منہ چڑھاتا ہے
وہ ایک شخص کہ پنہاں مرے لباس میں ہے
ابھی جراحت سر ہی علاج ٹھہرا ہے
کہ نبض سنگ کسی دست بے قیاس میں ہے
شجر سے سایہ جدا ہے تو دھوپ سورج سے
سفر حیات کا کس دشت بے قیاس میں ہے
ذرا جو تلخ ہو لہجہ تو کوئی بات بنے
غریب شہر مگر قید التماس میں ہے
تجھے خبر بھی ہے خود تیری کم نگاہی کا
اک اعتراف ترے حرف نا سپاس میں ہے
امید فاضلی