ڈر سے دو فٹ دوری پر
الجھے ہوئے ہیں منظر
حیرت سے آنکھیں وا ہیں
آواز گھنگروں کی
مرگ و بقا کی چیخوں, نعروں میں دب گئی ہے
تاریخ کی کتابیں
گمنامیوں کے نوحے
میرا وجود کیا تھا
یہ جینیاتی قضیے
مرکز سے مرکزے تک حیرانیوں کے جنگل
اک کھوج ہے مسلسل جو روز بڑھ رہی ہے
یورپ سے ایشیا تک
بارود کی ہے بد بو
نتھنوں میں جو بسی ہے
زیتون کی وہ ٹہنی ,سہما ہوا پرندہ
جھنڈے پہ سج گیا ہے
اب رات آ چکی ہے
سورج بھی تھک گیا ہے
اک خواب کا تسلسل
(اک نیلگوں سمندر
دھند میں گھرا جزیرہ)
نیندیں اجاڑتا ہے
امکان کی رتوں پر
سایہ فگن جو ڈر تھا
وہ پاس آ رہا ہے
منظر کو کھا رہا ہے
عادل وِرد