کفن چور
کچھ نہیں ، گھر میں مرے کچھ بھی نہیں
کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا
لقمہء نانِ جویں ، خون کو دھکّا دیتا
من کو گرماتا سکوں ، تن سے لپٹتا بستر
کچھ نہیں ، کچھ بھی نہیں ، کچھ بھی نہیں
رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ہوا
جسم کے بند مساموں میں اُترتی ٹھنڈک
سنگ ِمرمر سی ہوئیں خون ترستی پوریں
ہاتھ لرزاں تھے، امید وں نے مگر تھام لیے
پاءوں چلتے ہی رہے شہرِ خموشاں کی طرف
پردۃ خاک میں لپٹے ہوئے بے جان وجود!
باعث ِ ننگ ِ ز میں ہوں ، مگر اک بات بتا
جسم مٹی ہو تو کپڑوں کی ضرورت کیا ہے
دیکھ پیوندِ ز میں ! میرے تنِ عریاں پر
داغِ افلاس کا پیوند۔۔۔ اجازت دے دے
مر کے مرتے ہوئے انسان کو زندہ کر دے
ایک ملبوس کمانے کی اجازت دے دے
ورنہ بھوکی ہے بہت خاک ، کہاں دیکھے گی
جسم کھا جائے گی ، پوشاک کہاں دیکھے گی!
شہزاد نیّرؔ