میں کہتا ہوں عورت سب کچھ ہو پر چالاک نہ ہو اور چالاک بھی ایسی کہ توبہ توبہ جو بھی سنتا ہے انگشت بدنداں رہ جاتا ہے ۔ عالیہ میری چچا زاد اور میرے بچپن کی مانگ تھی ۔ ہمارا آبائی گھر ایبٹ آباد میں تھا جبکہ والد صاحب کراچی میں پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتے تھے ۔ میرے بہت بچپن میں وہ ہماری پوری فیملی کو کراچی لے آئے لیکن سردیوں گرمیوں کی چھٹیاں ہم ایبٹ آباد میں ہی گزارتے تھے ۔جوانی میں میرا شمار وجیہہ جوانوں میں ہوتا تھا گرچہ کراچی میں رہنے کی وجہ سے رنگ روپ کچھ دب سا گیا تھا مگر اسے میری خوش قسمتی کہا جاسکتا تھا کہ عالیہ کو مجھ سے شدید محبت تھی ۔ پیدا ہوتے ہی اس کے کانوں میں میرا نام پڑا تھا سو وہ نام اس کے دل پر نقش ہو گیا مجھے بھی اس سے انسیت تھی وہ ایک بےحد حسین لڑکی تھی لیکن پھر بھی میں اس سے کبھی بھی ٹوٹ کر محبت نہیں کر سکا میرے لئے یہی کافی تھا کہ وہ مجھ سے جنون کی حد تک محبت کرتی تھی ۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ شادی کے بعد بھی اس کی مجھ سے جنونی محبت کم نہ ہوئی ۔ میں اکثر آئینے میں بغور خود کو دیکھتا کہ آخر ایسی کیا بات ہے میرے چہرے میں کہ عالیہ مجھ پر اتنا مرتی ہے ۔شادی کی پہلی رات عموماً مرد اظہار محبت کرتے ہیں اور لڑکیاں سر جھکائے شرمائے سنتی رہتی ہیں لیکن ہمارا معاملہ الگ ہی ہوا وہ ساری رات اپنی محبت کا اظہار کرتی رہی اور میں حیرت زدہ سا اس کے جذبوں کی آنچ میں پگھلتا رہا اس کی ان جذباتی باتوں میں ایک بات بہت واضح تھی کہ وہ سب کچھ میری خاطر برداشت کر سکتی ہے لیکن کسی دوسری عورت کا سایہ بھی میری زندگی میں برداشت نہیں کرسکتی گو کہ اس کی چاہت کا پیمانہ میرے سامنے تھامگر اس کی یہ بات میرے حلق میں کانٹے چبھو گئی ۔ میں کبھی بھی کوئی بد کردار مرد نہیں تھا لیکن بس یہ تھا کہ اللہ کی بنائی ہوئی حسین ترین مخلوق عورت جہاں پر بھی جلوے بکھیرتی نظر آجاتی تو میری نگاہیں ان جلووں کو آداب عرض ضرور کہتی تھیں ۔
شادی شدہ زندگی کا وہ ابتدائی زمانہ بہت حسین تھا عالیہ نے مجھے ہر طرح کا سکھ دیا ۔ سچ کہوں تو اس کے زندگی میں آنے کے بعد میرے حالات بدل گئے ۔ ہے در پے کاروبار میں کامیابیاں ملیں تو چند ہی سالوں میں میں لکھ پتی سے کروڑ پتی کا سفر طے کر گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں سے بھی نواز دیا ۔ اچھا گھر ، اچھی گاڑی ، زندگی مکمل مکمل سی لگنے لگی لیکن بس میں عالیہ کی ایک عادت سے بہت تنگ تھا وہ مذاق میں بھی میرے منہ سے کسی دوسری عورت کا نام سننے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی ایک بار ایک شادی میں کالی ساڑھی میں ملبوس عورت میری نگاہ اور دل میں کھب سی گئی عورتوں کے لباس میں ساڑھی میراپسندیدہ لباس ہے لیکن میں نے کبھی عالیہ کو نہیں پہننے دی کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ ساڑھی میں ملبوس عورت کو جن نگاہوں سے میں دیکھتا ہوں لوگ اسے بھی ویسی ہی نظروں سے دیکھیں گے شاید یہ میرے ذہن کا فتور ہو لیکن بس عالیہ کے لئے یہ لباس مجھے منظور نہیں تھا ۔ میرا بار بار اس عورت کو دیکھنا عالیہ سے چھپا نہیں رہ سکا اس پر شاید میرے منہ سے دوچار جملے اس کی تعریف میں بھی پھسل گئے ۔ عموما وہ میرے منہ سے کسی عورت کی تعریف سن کر الجھ پڑتی تھی لیکن اس رات اس نے عجیب طرز عمل دکھایا وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اس عورت کی ٹیبل پر جا کر پانی سے بھرا گلاس اس کے منہ پر پھینک دیا اس عورت سمیت ہر کوئی حیرت کی تصویر بن گیا ۔ بعد ازاں محفل میں وہ تماشہ ہوا کہ اللہ کی پناہ ۔ گھر آ کر میں اس سے بہت جھگڑا وہ چپ چاپ مجھے سنتی رہی ۔ میں نے اسے کہا یہ کیا جذباتیت ہے کہ تم میرے منہ سے کسی عورت کے لیے دو تعریفی جملے نہیں سن سکتیں خدانخواستہ اگر کوئی دوسری عورت میری زندگی میں آ گئی تب تم کیا کرو گی ۔ اس نے عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھا قسم خدا کی جاوید میں چپ چاپ تمہاری زندگی سے چلی جاؤں گی مگر یاد رکھنا میں تمہاری زندگی سے جا کر بھی کبھی نہیں جاؤں گی ۔ اس کی اس مبہم بات کو بھی میں صرف اس کا جذباتی پن سمجھا تھا اس کے بعد میں محتاط ہوگیا میں نے اس کے ساتھ تقریبات اور تفریحی جگہوں پر جانا بھی کم کر دیا لیکن انسان چاہے کتنا ہی اپنے دل اور نظر پر تالے ڈال لے اس کی تمام تر احتیاطیں رضائے الہی کے سامنے بیکار ہو جاتی ہیں ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ۔ عالیہ کی تنگ نظری کے باوجود میں اس کے ساتھ بہت خوش تھا اس نے بھی ازدواجی زندگی کی ہر خوشی مجھے دی ہمارے بچے بھی اب بچپن سے نکل کر جوانی کی حدود میں داخل ہو چکے تھے کہ اچانک مجھ سے اٹھارہ سال چھوٹی صبغہ میرے دل پر لگے تمام تالوں کو توڑتی میری زندگی میں چلی آئی وہ میرے کلائنٹ ریٹائرڈ میجر صدیق خان کی اکلوتی بیٹی تھی اس کے بچپن میں ہی اس کی ماں گزر گئی تھی میجر صاحب نے اسے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا تھا اور جب سے وہ ریٹائرڈ ہوئے تھے ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہر جگہ اسے اپنے ساتھ رکھیں اس لیے جب وہ پلاٹ کی خرید و فروخت کے لئے میرے آفس آتے تو اسے بھی ساتھ لے آتے تھے وہ زیادہ تر خاموش رہتی تھی میں بھی اس سے سلام دعا سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا پر جلد مجھے لگنے لگا وہ میرے حواسوں پر سوار ہوتی چلی جا رہی ہے کبھی کبھار جب میجر صاحب مصروف ہوتے تو وہ فون رسیو کر لیتی تھی آہستہ آہستہ فون پر بھی بات بڑھنے لگی میں خود کو روک لینا چاہتا تھا پر وہ اتنی معصوم تھی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی ۔ بات اگر صرف میری چاہت کی ہوتی تو شاید میں خود کو روک لیتا لیکن مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ اس کی آنکھوں میں بھی میرے لئے چاہت کے رنگ اتر آئے ہیں ۔
یک طرفہ چاہت گھٹن زدہ ہوتی ہے لیکن اگر دو طرفہ ہو جائے تو سراسر طلب ہی طلب ۔ اسی آرزو میں میں نے میجر صاحب سے صبغہ کا ہاتھ طلب کرلیا ۔ میجر صاحب کو کچھ رد و کد ہوئی پر ایک تو وہ خاصے سمجھدار انسان تھے بیٹی کی مخالفت پر نہیں اترے دوسرے میری مالی حیثیت سے مطمئن تھے اس لئے جلد ہی ہمارے نکاح کے لئے راضی ہو گئے میرے تین بہت قریبی دوستوں کی موجودگی میں نکاح ہوا جن پر مجھے پورا یقین تھا کہ وہ عالیہ کو اس بات کی ہوا بھی نہیں لگنے دیں گے میں نے صبغہ کو عالیہ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اسے میری تھوڑی قربت کو ہی بہت جاننا ہو گا وہ بہت اچھی لڑکی تھی چاہتی تھی کہ عالیہ اسے قبول کرلے لیکن میں جانتا تھا کہ ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے ۔ اسی لیے میں دن کے کسی حصے میں اس سے میجر صاحب کے بنگلے پر ہی مل آتا تھا مگر عالیہ کوئی معمولی عورت نہیں تھی بے حد چالاک تھی اس نے میرے چہرے پر خوشی اور سکون کے انوکھے رنگ تلاش کرلیے تھے اور نہایت پوشیدہ رکھنے کے باوجود میرے موبائل سے میری دہری زندگی کا راز پا گئی اس رات شدت جذبات سے اس کی طبیعت بگڑ گئی لیکن اس نے مجھ پر واضح نہیں ہونے دیا ڈاکٹروں نے بڑی مشکل سے سنبھالا ورنہ ہائی بلڈپریشر اس کی پوری زندگی کو مفلوج بھی بنا سکتا تھا ۔ میں اس کی مکمل خاموشی پر اندر ہی اندر خوفزدہ رہا لیکن چند دنوں بعد ہی مجھے اس کی جانب سے خلع کا نوٹس مل گیا میں نے اسے سمجھانے کی سر توڑ کوشش کی پر وہ اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی اور بالآخر ہمارے درمیان علیحدگی ہوگئی ۔ وہ مجھے اور ہمارے تینوں بیٹوں کو چھوڑ کر اپنے بھائی کے پاس چلی گئی چند روز میں بہت غمگین رہا پھر گھر کا شیرازہ مکمل طور پر بکھرنے سے بچانے کے لیے صبغہ کو گھر لے آیا ۔ شروع شروع صبغہ نے میرے بیٹوں کی مخالفت جھیلی پر رفتہ رفتہ وہ اس کے اچھے سلوک کے آگے نرم پڑ گئے اس نے مجھے اور میرے گھر کو سنبھال لیا عالیہ اب بھی مجھے روز یاد آتی تھی اور کیوں نہ آتی میری زندگی کے سولہ برسوں پر صرف اور صرف اس کی حکومت رہی تھی بچے اس سے رابطے میں تھے اور ان کی بابت خیر خیریت پتہ چل جاتی تھی کاش وہ اتنی چالاک نا ہوتی اور تھوڑا برداشت سے کام لیتی تو ہم ایک اچھی زندگی گزار سکتے تھے مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ عورت مرد کے لیے اتنی تنگ نظر کیوں ہوتی ہے ۔ شوہر ملک سے باہر سالوں گزار آئے تو جدائی سہہ لے گی مگر دو گھڑی کسی دوسری عورت کے پاس گزار ائے تو ساتھ جینا حرام کر دے گی ۔ کیوں ، آخر کیوں ؟ اس سوال کا جواب مجھے کبھی نہ مل سکا یہان تک کہ دو سال کا عرصہ گزر گیا سب کچھ پر سکون چل رہا تھا کہ اچانک ایک روز صبغہ نے مجھے اپنے والد کی طرف چلنے کے لئے کہا اس کی دکھی حالت دیکھ کر میں سمجھا کہ شاید میجر صاحب بیمار ہوں گے لیکن جب ان کی طرف پہنچے تو انہیں ہشاش بشاش چاک و چوبند پایا وہ ان کے گلے سے لگ کر رونے لگی مجھے اس کے رونے اور میجر صاحب کے ہنس ہنس کر اسے پچکارنے پر حیرت ہوئی تبھی میرے پیچھے کسی نے سلام کیا ۔ کچھ جانی پہچانی آواز سن کر میں پلٹا تو پتھر ہوگیا ۔ وہ چالاک عورت جارجٹ کی نہایت باریک اور مہین ساڑھی باندھے اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ میرے سامنے کھڑی تھی ایک بجلی کا کوندا سا تھا جو میرے دل پر لپکا تھا میں چکرا کر صوفے پر گر سا گیا وہ چلا ک عورت اپنی رعنائیوں سمیت میرے قریب سے گزر کر میرے سسر کے پہلو میں جا بیٹھی اور وہ اسے اپنے بازو کے حلقے میں لے کر اس کا مجھ سے بطور اپنی شریک حیات تعارف کروانے لگے اسی دم عالیہ کی نگاہوں نے مجھ سے کہا یاد ہے جاوید میں نے کہا تھا نہ کہ میں تمہاری زندگی سے جا کر بھی کبھی نہیں جاؤں گی ۔ اب یہ تو میرے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے کہ میرے نکاح سے نکل کر وہ میری بیوی کے باپ کے نکاح میں چلی جائے گی ۔ میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دل کے ساتھ سوچتا رہ گیا کہ توبہ ۔۔۔ توبہ
اتنی چالاکی۔
کرن نعمان