’’جھلّی چلی گئی۔ رُوحی بانو‘‘
مستنصر حسین تارڑ 92نیوز
’’کتاب عُمر کا ایک باب ختم ہوا شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا‘‘ روحی بانو کے بھی سب عذاب ختم ہوئے۔ سب آزمائشیں ‘ سب امتحان‘ سب نارسائیاں سب دُکھ درد ختم ہوئے۔ کسی کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ کہاں کس ماحول میں پیدا ہو جائے۔ اس کے بس میں یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ماحول سے فرار ہو جائے۔ اپنا پس منظر پوشیدہ کر کے ’’مہذب‘‘ معاشرے میں شامل ہو جائے۔ روحی بانو بیک وقت دو دُنیائوں میں سانس لیتی تھی ایک وہ دنیا جہاں ادب ‘ فلسفے ‘ نفسیات اور فنون لطیفہ کی باتیں ہوتی تھیں۔ جہاں انور سجاد‘ منو بھائی‘ اشفاق احمد اور یاور حیات ایسے لوگ تھے۔ وہ ان جیسی ہو جانا چاہتی تھی لیکن جب وہ واپس ایک اور دنیا میں جاتی تھی تو وہ محض ہوس اور پیسے کی دنیا ہوتی تھی جو اسے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی تھی۔ اس کا بھی مول لگانا چاہتی تھی اور وہ مول لگوانا نہ چاہتی تھی۔ انہیں تضادات میں سے عذابوں نے جنم لیا۔ اس نے بہت ہاتھ پائوں مارے کہ وہ بندھنوں میں سے نکل جائے۔ فلمی دنیا کی خاک چھانی۔ فضول قسم کی فلمیں اس کے حصے میں آئیں۔
شادی کا تجربہ بھی ناکام ہو گیا اور آخری عذاب وہ نازل ہوا جو خدا کسی دشمن کی ماں پر بھی نہ اتارے۔ اس کا جوان بیٹا عجیب سے حالات میں مر گیا۔ اب تو وہ کملی ہو گئی۔ دربدر ہوئی جھلی ہو گئی۔ نہ اپنی خبر ‘ نہ لباس کی پرواہ اور نہ یہ پرواہ کے کس کے ساتھ چل دی ہے۔ ہنستی اور روتی تو وہ پہلے بھی بہت تھی یہاں تک کہ شبہ ہوتا تھا کہ اسے کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہے لیکن اب وہ اپنے بیٹے کے لئے اتنا روتی تھی کہ ہمسائے بھی تنگ آ گئے اور آپ کو پتہ ہے کہ جن مائوں کے جوان بچے مر جاتے ہیں تو وہ کیسے روتی ہیں؟ جب لوگ ان کے رونے دھونے سے اُکتا جاتے ہیں تو وہ سب کے سامنے نہیں‘ چھپ چھپ کر روتی ہیں۔ جیسے بلیاں روتی ہیں۔ روحی بھی چھپ چھپ کر بلیوں کی مانند روتی تھی۔ اپنے زمانے کی سب سے بڑی اداکارہ‘ سب سے خوش نظر اور خوش جمال لڑکی۔ دنوں میں بوڑھی ہو گئی۔ بکھرے ہوئے سفید بال میل سے اٹے ہوئے غلیظ لباس اور چہرے پر جھریاں۔ اس پر ایک فقیرنی کا گمان ہونے لگا۔ لوگ اس پر ترس کھا کر کچھ مدد کر دیتے۔ وہ رُل گئی گلیوں میں۔ پرانے شناسا منہ موڑ کر چلے جاتے اور وہ ہنسنے لگتی۔
چنانچہ شکر ہے اس کے عذاب ختم ہوئے۔ وہ پردہ جو حائل تھا بقا اور فنا کا اس کے اور بیٹے کے درمیان وہ اٹھ گیا۔ اب جھلی جائے اور اپنے بیٹے کے گلے لگ جائے۔ اسے لوریاں سنائے۔ اسے چومے‘ اسے پیار کرے کہ اب وہ اس سے کبھی بھی جدا نہ ہو گی۔ 1968ء کا زمانہ تھا‘ پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز تھا جب میں نے اس کے ساتھ پہلا ڈرامہ اشفاق احمد کا تحریر کردہ کیا۔ قوی خان کے ساتھ میں ایک نفسیات دان کے روپ میں آیا۔ میں قوی اور روحی کی نفسیاتی الجھنوں کا مداوا کرتا تھا۔ پہلی بار آمنا سامنا ہوا تو میرا دل کم از کم ایک دھڑکن مس کر گیا۔ وہ کوئی سوہنی تھی۔ بالٹری سی تھی اور کوئی روپ تھا اس کا۔ بعدازاں زیادہ نہیں چند ایک ڈراموں میں ہم آمنے سامنے ہوئے اور ان میں ایک ڈرامہ اشفاق صاحب کا ہی لکھا ہوا’’داستان حبیب‘‘ تھا۔ یہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے ایک شدید عشق کی داستان تھی اور یہ عشق یک طرفہ تھا کسی حد تک۔ روحی کا نام ڈرامے میں کیا تھا مجھے یاد نہیں البتہ حبیب میں تھا اور جب کبھی ان دونوں کا آمنا سامنا ہوتا تھا تو روحی اپنے حبیب کو دیکھ کر گنگ رہ جاتی اور صرف روتی جاتی۔ روتی ہی جاتی۔ ایک ایسے ہی منظر میں میرے سامنے آئی اور آنسو اس کی آنکھوں سے بارش کی مانند گرنے لگے۔ وہ روتی گئی۔ منظر ختم ہو گیا لیکن روحی بانو نے رونا بند نہ کیا۔ میں نے اسے کندھوں سے جھنجھوڑا‘ چپ کرانے کی کوشش کی کہ روحی سین اوکے ہو گیا ہے۔ کٹ کی آواز آ چکی ہے لیکن نہیں۔ بہت مشکل سے اس نے اپنے آپ پر قابو پایا۔ روحی شائد اپنے کردار سے نکل کر حقیقی زندگی میں چلی گئی تھی اور وہاں جو دکھ سہتی تھی‘ جو ظلم اس پر روا رکھے جاتے تھے اور آس پاس جو بھیڑیے تاک میں رہتے تھے ان کے ڈر سے روتی تھی۔ اور آئندہ زمانوں میں اس نے اپنے بیٹے کی موت کا جو صدمہ نہیں سہنا تھا وہ اس کے غم میں روتی تھی۔ جب میں اداکاری ترک کر کے ڈرامہ نگاری اور کمپیرنگ کی جانب چلا گیا تو وہ جہاں ملتی ہمیشہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہتی’’یہ میرا ہیرو ہے‘ مجھے چھوڑ کر چلاگیا ہے۔ آج میرے موبائل پر دھڑا دھڑ روحی کی تصویریں منتقل ہوتی گئیں۔ خاص طور پر ایک ایسی تصویر جو شیخ منظور الٰہی کے گھر میں اتاری گئی تھی۔ ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے سے بیٹھے ہیں اور ہم دونوں ابھی جوان تھے۔ کچھ لوگ جانے کہاں سے ہم دونوں کے ڈراموں کی تصویریں تلاش کر کے مجھے بھیجتے گئے اور میں حیران ہوا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اور تب میری بیگم نے میری سٹڈی میں جھانک کر کہا’’روحی بانو بھی مر گئی ہے‘‘ اور اس کے ساتھ میڈیا کی جانب سے فون آنے لگے کہ آپ کے تاثرات کیا ہیں۔ میں انہیں کیا بتاتا ۔ میں نے یہی کہا کہ اچھا ہوا اس کے عذاب ختم ہوئے۔ گارسیا مارکیز اور گھنتھرگراس کی میجیکل رئیل ازم یعنی جادوئی حقیقت نگاری کی تحریروں سے بہت پہلے یہ روحی بانو تھی جس نے اپنے پاگل پن میں جادوئی حقیقت نگاری کی بنیاد رکھی۔ اس کی اداکاری میں جادوگری کے کرشمے تھے جن میں حقیقت کی پرچھائیاں مدغم ہوتی تھیں۔ وہ اکثر ڈائیلاگ بولتے ہوئے ایک وارفتگی میں چلی جاتی۔ بے خبر ہو جاتی۔ سیٹ سے لاتعلق سی ہو جاتی اور اسے واپس لانا پڑتا۔ ایک آدھ بار تو میں اپنے مکالمے بولنا بھول گیا۔ بس اسے دیکھتا رہا۔ عجیب جھلی جادوگرنی تھی۔ اس دنیا کی سٹیچ پر اور بھی اداکارائیں آئیں گی پر روحی بانو جیسی اور کوئی نہ آئے گی۔ زمانہ پھر نہ کوئی اس جیسی دیکھے گا کہ کون ہو گا جو اداکاری میں بے مثال ہو۔ حسن میں کمال ہو اور پھر اداکاری اور حسن میں اپنے دکھ درد بھر دے اور اپنے پاگل پن کی آمیزش کر دے۔ اس جیسا اب کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا کہ وہ ایک غزال تھی جس کے بغیر صحرا اداس ہے۔ غزالاں تم تو واقف ہو کہ روحی بانو مر گئی ہے۔ جھلی چلی گئی ہے: غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری