کسی کی یاد کا چہرہ
مرے ویران گھر کی ادھ کھلی کھڑ کی سے
جو مجھ کو بلاتا ہے
سمے کی آنکھ سے ٹوٹا ہوا تارا
جو اکثر رات کی پلکوں کے پیچھے جھلملاتا ہے
اُسے میں بھول جاؤں گی
ملائم کاسنی لمحہ
کہیں بیتے زمانوں سے نکل کر مسکراتا ہے
کوئی بھولا ہوا نغمہ فضا میں چپکے چپکے پھیل جاتا ہے
بہت دن سے کسی امید کا سایہ
کٹھن راہوں میں میرے ساتھ آتا ہے
اسے میں بھول جاؤں گی
پرانی ڈائری کی شوخ تحریروں میں
جو اِک نام باقی ہے
کسی منظر کی خوشبو میں رچی
جو راحتِ گمنام باقی ہے
ادھورے نقش کی تکمیل کا
جتنا بھی ، جو بھی کام باقی ہے
یہ جتنے دید کے لمحے
یہ جتنی شام باقی ہے
اسے میں بھول جاؤں گی
کسی کی یاد کا چہرہ
اسے میں بھول جاؤں گی
اسے میں بھول جاؤں گی
میں اکثر سوچتی تو ہوں
مگر وہ یاد کا چہرہ
مگر وہ ادھ کھلی کھڑکی
گلناز کوثر