آپ کا سلاماردو تحاریراسلامی گوشہاسلامی مضامین

سچی حکایات

از محمد یوسف برکاتی

جانوروں پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کے بارے میں ہم اکثر و بیشتر مختلف کہانیاں سنتے ہیں پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالی کی ہر جانور پرندے یہ کیڑے پیدا کرنے میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے اج ہم اپنی اس تحریر میں کچھ ایسے مختصر واقعات یا حکایات پڑھیں گے جو جانوروں پرندوں اور کیڑے مکڑوں کی متعلق ہوں گی اور جن سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا یہ حکایات ہماری زندگی سے بہت قریب ترین ہیں اور ہمیں معلوم ہوگا کہ ان میں چھپی باتیں ہمارے لیے کتنی اہم ہیں اور زندگی گزارنے اور صحیح راستے پہ چلنے کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے ان حکایات کو پڑھ کر ہمیں اپنی زندگی کو صحیح سمت پر لے جانے میں بڑی مدد ملے گی۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک جگہ کتوں کے درمیان ایک دوڑ ہوئی دوڑ کا مطلب ریسنگ ہوئی کتوں کی اس دوڑ میں ایک شیر بھی شامل تھا جب دوڑ کا اغاز ہوا تو سارے کتے بھاگنے کے لیے تیار ہوئے اور فائر ہوتے ہی بھاگنا شروع کر دیا لیکن شیر اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلا شیر کے مالک سے پوچھا گیا کہ اخر تمہارا شیر کیوں نہیں بھاگا تو اس نے کہا کہ لوگوں کے ضد کی وجہ سے میرے شیر نے حصہ تو لے لیا لیکن وہ شیر ہے اسے کتوں کے سامنے اپنے اپ کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ویسے ہی تو نہیں کہتے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو دوسروں کو کامیاب دیکھ کر ان کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی اہلیت کو اپنی قابلیت کو ان کے سامنے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس مختصر حکایت میں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ انسان اگر چاہے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر اپنی اہلیت اور قابلیت کو خود ثابت کرسکتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب یہ ایک مختصر حکایت پڑھئے کہ ایک کتے کی نظر ایک خرگوش پر پڑتی ہے تو وہ اسے پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگتا ہے خرگوش اپنی جان بچانے کے لئے تیزی سے بھاگنا شروع کردیتا ہے لیکن کتا بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے بھگتا ہے بھاگتے بھاگتے جب کافی دور نکل گئے تو کتا تھک جاتا ہے اور ایک جگہ بیٹھ جاتا ہے اسے دیکھ کر خرگوش بھی بیٹھ جاتا ہے تب کتا اسے کہتا ہے کہ تمہاری تو ٹانگیں بھی چھوٹی ہیں اور قدم بھی چھوٹے ہوتے ہیں جبکہ میری ٹانگیں بھی لمبی ہیں اور میں تم سے لمبی چھلانگ لگا سکتا ہوں لیکن پھر بھی تمہیں پکڑ نہیں سکا آخر ایسا کیوں ہے اب خرگوش نے جو جواب دیا اس مختصر حکایت میں یہ ہی ہم سب کے لئے سبق ہے خرگوش نے کہا کہ اصل میں میں اپنے لئے بھاگ رہا ہوں اور تم دوسروں کے لئے بھاگ رہے تھے مطلب یہ کہ ہم اگر اپنے حقوق کے لئے خرگوش نہیں بن سکتے تو ہمیں دوسروں کے لئے کتا بھی نہیں بننا چاہئے ہمارے یہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے ہمارے سارے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے لیکن ہم خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کرتے جبکہ دوسروں کی ناجائز کامیابی پر تالیاں بجانے والوں میں ہم آگے آگے ہوتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب میں جو اپ کو حکایت بتانے جا رہا ہوں اس سے بڑے غور سے پڑھیے گا اور دیکھیے گا کہ اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کو اپنی کیا کیا باتیں کس کس طرح سے کس کس وسیلے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ میرا بندہ میرے احکامات پر عمل کر کے صحیح راستے پر گامزن ہو سکے اب چاہے وہ جانور ہی کیوں نہ ہو حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے پاس ایک شخص ایا اور عرض کیا کہ میں نے بہت سنا اور پڑھا ہے کہ فلاں کام میں برکت ہے فلاں عمل میں برکت ہے لیکن میں برکت کو نہیں مانتا اور اس پر وہ اپ رحمت اللہ تعالی علیہ سے بحث کرنے لگا اپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ کیا تم نے کتیا اور بکری کو دیکھا ہے کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ دونوں میں سے زیادہ بچے کون پیدا کرتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ کتیا تو اپ نے فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤ کیا عام طور پر تمہیں کتیا زیادہ نظر اتی ہیں یا بکری؟ تو اس نے کہا کہ بکریاں زیادہ نظر اتی ہیں تو اپ نے فرمایا بالکل صحیح ہر سال لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں بکریاں ذبح ہوتی ہیں لیکن پھر وہی کی وہی سامنے ا جاتی ہیں اب ذرا بتاؤ کہ یہ برکت نہیں تو کیا ہے اسے ہی برکت کہتے ہیں اس شخص نے کہا کہ اچھا تو پھر یہ بتائیے کہ یہ برکت صرف بکریوں میں کیوں کتوں میں کیوں نہیں؟ تو اپ نے فرمایا کہ دراصل بکریاں رات ہوتے ہی سو جاتی ہیں اور صبح فجر ہوتے ہی اس وقت اٹھ جاتی ہیں جب نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے اور برکتیں حاصل کرنے کا ایک اچھا وقت ہوتا ہے لہذا ان بکریوں میں برکت ہی برکت ہو جاتی ہے جبکہ کتا ساری رات بھونکتا ہے ادھر ادھر مارا مارا پھرتا ہے لیکن جب فجر کا وقت ہوتا ہے تو اس سے پہلے ہی وہ سو جاتا ہے لہذا وہ برکت سے محروم رہ جاتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم غور کریں تو ہمارے لیے بھی یہ بڑے غور و فکر کی بات ہے کہ ہم ساری ساری رات فضولیات میں گزار دیتے ہیں اور دیر تک جاگنے کی ایک عادت سی بنا لیتے ہیں اور جب صبح نزول رحمت کا وقت اتا ہے تو ہم سو جاتے ہیں یہ ہماری بد قسمتی ہے یہی وجہ ہے کہ اج نہ ہمارے کاروبار میں برکت ہے نہ روزی میں برکت ہے نہ گھر میں برکت ہے نہ مال میں برکت ہے نہ اولاد میں برکت ہے ہمیں کہیں بھی کسی بھی جگہ پر برکت نظر نہیں اتی بس اس مختصر حکایت سے معلوم ہوا کہ رات کو دیر تک جاگنا اور نزول رحمت کے وقت سوجانا ہماری دنیاوی زندگی اور آخرت کی زندگی دونوں کے لئے صحیح نہیں ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق جس میں جانور ، پرندے اور کیڑے مکوڑے آتے ہیں اللہ تعالیٰ کی دنیا میں انہیں بھیجنے اور پیدا کرنے میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے اب دیکھیں لفظ محبت صرف انسانوں کی میراث نہیں ہے ایسا نہیں ہے کہ صرف اس کرہ ارض میں انسان ہی محبت کا جذبہ رکھتے ہوں بلکہ دنیا میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی نہ کسی جانور ، پرندے یا کیڑے سے محبت کرکے انہیں پالتے ہیں ہمیں یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہر پرندہ ہر جانور اور ہر کیڑا اپنے اندر کوئی نہ کوئی خاصیت ضرور رکھتا ہے جو اسے انسانوں کے قریب کر دیتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھیں اگر ہم وفاداری کی بات کریں تو ہمارے ذہن میں اسی وقت یا تو گھوڑے کا خیال آئے گا یا پھر کتے کا کیونکہ کتے کی وفاداری پر تو بیشمار کہانیاں ، ڈرامے ، فلمیں اور حقیقی واقعات ہمیں ملتے ہیں آج کی اس تحریر میں کتے کے متعلق ایک سچا واقعہ لکھ رہا ہوں جسے پڑھ کر آپ کو یقینی طور پر لطف بھی آئے گا اور بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملے گا 1920 کی دہائی میں، جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک پروفیسر ہیڈسابورو اوئنو نے ایک اکیٹا نسل کا کتا گود لیا جس کا نام ہچیکو رکھا۔ ہر روز پروفیسر کام پر جاتے تو ہچیکو ان کے ساتھ شبویا اسٹیشن پر انہیں چھوڑنے اتا اور شام کو واپسی پر وہی پر وہ پروفیسر کا انتظار کرتا جب وہ گاڑی سے اترتے تو وہ دونوں گھر کی طرف روانہ ہو جاتے جس جگہ پروفیسر صاحب جاتے تھے وہ جگہ ان کی رہائش گاہ سے کافی دور تھی لہذہ انہیں روزانہ شبویا اسٹیشن سے گاڑی پکڑنی پڑتی تھی اور یہ معمول بن گیا تھا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مگر ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ پروفیسر کو اپنے آفس میں ہی اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے چونکہ ان کا آگے پیچھے کوئی نہ تھا اور ان کا آفس بھی ان کی رہائش گاہ سے کافی دور تھا تو لوگوں نے ان کی تدفین وہیں پر کردی اس کے بعد ہچیکو ہر روز اسی وقت شبویا اسٹیشن پر جاتا اور اپنے مالک کا انتظار کرتا، جسے وہ کبھی واپس آتا نہ دیکھ سکا۔ہچیکو نے اگلے نو سال تک، ہر روز اسی جگہ پر اپنے مالک کے واپس آنے کا انتظار کیا، چاہے برفباری ہو یا بارش۔ لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہوئے اور اس کی وفاداری کو سراہا۔ ہچیکو کی موت 1935 میں ہوئی، مگر اس کی محبت اور وفاداری کی داستان کبھی فراموش نہ ہوئی ہچیکو کے اعزاز میں شبویا اسٹیشن کے باہر اس کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا، جو آج بھی وہاں موجود ہے۔ یہ واقعہ انسان اور جانور کے درمیان اٹوٹ رشتہ اور محبت کی خوبصورت مثال ہے، اور اس سے یہ سیکھ ملتی ہے کہ جانوروں کی وفاداری اور محبت کتنی گہری بھی ہو سکتی ہے اور ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محبت اور مدد کے جذبات جانوروں میں بھی موجود ہوتے ہیں اور وہ اس کا جواب اپنی وفاداری اور محبت سے دیتے ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ائیے اب ایک اور بڑے دلچسپ حکایات پڑھتے ہیں اکثر دیہاتوں میں ایک کیڑا پایا جاتا ہے جسے گوبر کا کیڑا کہا جاتا ہے گائے اور بھینسوں کا گوبر اسے بہت پسند ہوتا ہے وہ صبح صبح اٹھ کر گوبر کے تلاش میں نکل جاتا ہے اور جہاں جہاں سے اسے گوبر ملتا ہے وہ اس کا ایک گولا بنا کر جمع کرتا رہتا ہے جب بڑا گولا بن جاتا ہے تو اسے دھکے دے کر اپنے بل کی طرف لے کر جاتا ہے لیکن جب وہ اپنے بل پر پہنچتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ گولا بڑا ہے اور بل کا منہ یعنی سوراخ چھوٹا وہ بہت کوشش کرتا ہے کہ وہ گولا بل کے اندر چلا جائے تاکہ اس کی خوراک کا بندوبست ہو سکے لیکن گولے کا سائز بڑا ہونے کی وجہ سے وہ گولا بل کے اندر نہیں جاتا جب وہ تھک جاتا ہے تو گولے کو وہیں چھوڑ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے درمیان بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو دولت کمانے کی خاطر جائز ناجائز حرام حلال صحیح غلط ان تمام چیزوں کی تمیز کیے بغیر سب کچھ سمیٹنے کے چکر میں لگے ہوتے ہیں جب بے شمار دولت جائیداد اور بینک بیلنس جمع ہو جاتا ہے اور اپنی عمر کے اخری حصے میں پہنچتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہم قبر میں تو نہیں لے جا سکتے پھر وہ حسرت بھری نظروں سے اپنی محنت کی جمع کی ہوئی اس جائیداد اور بینک بیلنس کو دیکھتے ہیں اور پھر وہ یہ سب کچھ اسی دنیا میں چھوڑ کر قبر میں چلے جاتے ہیں۔اس حکایت سے یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ زندگی میں صرف اتنا جمع کرو جتنا یہاں رہنا ہے اور جس کا حساب ہم بروز محشر اللہ تعالیٰ کے حضور دے سکیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آئیے اب ایک اور سچی حکایت پڑھتے ہیں جسے پڑھ کر آپ کا اپنے رب پر ایمان اور مظبوط ہوگا اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی محبت اور عشق میں اضافہ ہوگا معروف اور مشہور محدث جنہوں نے صحیح البخاری کی شرح لکھی
” ابن حجر عسقلانی” انہوں نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے کہ جب منگولوں نے پوری مسلم دنیا پر قبضہ کر لیا تھا بغداد میں خون بہہ رہا تھا غرناطہ لٹ رہا تھا جب جامعہ نظامیہ کی لائبریری موجوں کی زد میں تھی تہ خانوں میں پانی چھوڑ دیا گیا تھا مسلمانوں نے کم و بیش سوا لاکھ لاشیں وہاں سے اٹھائیں اور وہاں پر اب کوئی مسلمان باقی نہیں تھا وہ دن بھی بڑے دردناک دن تھے منگولوں کا سردار جو عیسائی ہو چکا تھا اس نے ایک بہت بڑا استعمال کیا اور بڑی دیدہ دلیری سے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے خلاف گستاخی کرنا شروع کر دی چونکہ وہاں پر کوئی مسلمان نہیں تھا لہذا تمام لوگ چپ رہے لیکن رسیوں سے بندھا ہوا ایک کتا زور زور سے بھونکنے لگا لوگوں نے کہا کہ تم مسلمان کے نبی کے بارے میں اور ان کے خلاف بات کر رہے ہو لہذا یہ کتا اسی وجہ سے بھونک رہا ہے تو اس نے کہا کہ نہیں یہ کتا بڑا غیرت مند ہے میں چونکہ بات کرتے ہوئے ہاتھ ہلا رہا ہوں تو میرے ہاتھ کا اشارہ اس کی طرف چلا گیا لہذا اس وجہ سے وہ بھونک رہا ہے یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے خلاف گستاخی کرنا شروع کر دی اتنے بڑے مجمع میں کوئی ایک بھی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا غلام نہیں تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ایسا موقع ایا ہے تو اللہ رب العزت نے کوئی نہ کوئی معجزہ دکھایا گویا رسیوں سے بندھے ہوئے کتے نے جب اس خبیس کو گستاخی کرتے ہوئے دیکھا تو رسیوں کو توڑ کر وہ دوڑا اور شیر کی طرح اس نے اس گستاخ پر حملہ کر دیا اس نے اس کی گردن پر اپنے دانت گاڑ دیے اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اسے جہنم میں نہیں پہنچا دیا یہ منظر دیکھ کر وہاں پر موجود کم و بیش 40 ہزار لوگ مسلمان ہو گئے اور انہوں نے کتے کی اس محبت اور عشق کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے یہ بات کہی کہ محبت کا دعوے دار صرف انسان ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ یہ صفت اپنی کسی بھی مخلوق کو عطا کردیتا ہے تو اس حکایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک کتے کی وجہ سے چالیس ہزار لوگ مسلمان ہوگئے کیونکہ اس کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی محبت کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ اس سے ان کی گستاخی برداشت نہ ہوئی اور اس نے ایک مردود کو واصل جہنم کردیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک و تعالی کی تمام مخلوقات ہی نہیں بلکہ اس کی ہر نعمت بڑے بڑے مضبوط پہاڑ ، لمبے اور تناور درخت، خوبصورت اور شفاف پانی سے بھرے چشمے ، بہتے ہوئے پانی والے سمندر ، دریا ، اور دنیا میں پھیلی ہوئی خوبصورتی دیکھ کر ہمیں اس رب تعالی کی شان اور عظمت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے کیا کیا نعمتیں بنائی اور انہیں مہیا کی ہمیں اس کی اس خوبصورت دنیا کو دیکھ کر اس کی حکمت اور اس کی مصلحت کا اندازہ کر لینا چاہیے کہ اس کی ہر نعمت میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے جو صرف اور صرف ہمارے فائدے کے لیے ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے لہذا اس کی کوئی نعمت اس کی کوئی مخلوق کسی بھی بندے کے لیے نقصان دہ نہیں ہو سکتی بس ہمیں غور کرنا ہوگا غور کیجئے اور اس کی حکمت اور مصلحت کو سمجھتے ہوئے اس کے راستے پر اور اس کے احکامات پر عمل کر کے اپنی زندگی کو بسر کیجیے انشاءاللہ دنیاوی عارضی زندگی اور ہمیشہ قائم رہنے والی اخرت کی زندگی دونوں ہمارے لیے بہتر ثابت ہوں گی انشاءاللہ۔

محمد یوسف برکاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button